• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منگل، 22اگست کی صبح، ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی پر تقریر کا جیو نیوز پر براہ راست ترجمہ پیش کرنا تھا۔ اندازہ تھا کہ ٹرمپ اس بار پاکستان سے متعلق کوئی سخت اور متنازع بات کر سکتے ہیں۔ گویا ایسی صورتحال میں براہ راست، بروقت اور بے باک ترجمہ کرنا کم و بیش ایک امتحان ہی تھا۔ کوئی چھ بجے تقریر شروع ہوئی تو ٹرمپ کو اصل موقف تک آنے میں دیر نہ لگی۔ پاکستان سے متعلق انہوں نے جو کچھ کہا وہ اب زبان زد عام ہے۔
نیّت اور ارادوں سے قطع نظر جدید سفارت کاری میں لب و لہجہ، صبر اور یکسوئی نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو بظاہر اِن حقائق سے کوئی دلچسپی نہیں یا پھر اِن جدید سفارتی تقاضوں سے اِن کی واقفیت اب تک انتہائی محدود ہے۔ اس مختصر خطاب میں پاکستان سے متعلق ان کی چند باتیں حسب توقع حسّاس نوعیت کی تھیں، ایسے میں ہر ’جملے‘ کا فوری ترجمہ ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی مناسب! البتہ ان کی چند باتوں پر ترجمے کا خیال آنے کے بجائے شدید ردّعمل کی خواہش ہوئی۔ لیکن مینڈیٹ میں اِس لگژری کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کو اربوں ڈالرز کی امداد دیتا رہا ہے لیکن وہاں (پاکستان میں) آج بھی اُن عناصر کو تحفظ حاصل ہے جن سے امریکہ جنگ کررہا ہے اور یہ بھی کہ اب وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ یہ دھمکی آمیز لہجہ پاکستان کے اندرونی خلفشار کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے ۔ ہر تجربہ کار سفار ت کارجانتا ہے کہ اندرونی بحران کے شکار کسی ملک کے خلاف تلخ لہجے کا استعمال عموماً آسان اور موثر ثابت ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح مینڈیٹ سے تجاوز کر کے فوری ردّعمل کا اظہار ایک احمقانہ سا خیال تھا اسی طرح ٹرمپ کے خطاب پر پاکستان کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ ردّعمل غیر ضروری طور پر کسی ناخوشگوار صورتحال کا سبب بن سکتا ہے۔
ملک کے اقتصادی حالات کے تناظر میں اس غیر ضروری تنازع میں خود کو زیادہ دیر تک الجھائے رکھنا کسی طور اچھی سفارت کاری نہیں سمجھی جاسکتی۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے غیر متوقع طور پر پاکستان کو امریکیوں کا قبرستان کہہ کر پہلے ہی مایوس کردیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں سیاسی منطق اور سفارتی دانشمندی کے برخلاف سڑکوں پر نکلنے اور احتجاج کرنے کی تجاویز بھی سامنے آئیں۔
سچ یہ ہے کہ بڑی طاقتوں سمیت دنیا کے بیشتر ممالک اپنی خارجہ پالیسیاں ازسرنو وضع کررہے ہیں۔ پاکستان سرد جنگ کے دوران اور گیارہ ستمبر کے واقعات کے نتیجے میں بڑی طاقتوں کے ہاتھوں سیاسی، اقتصادی اور امن عامہ سمیت ہر قسم کے بحران کا شکار رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ نہ صرف امریکہ سے تعلقات بحال رکھنے کی بھرپور کوشش کی جائے بلکہ چین، روس اور اہم یورپی ممالک سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک سے دو طرفہ تعلقات بہتر اور مضبوط تر کئے جائیں۔ کسی ایک بڑی طاقت سے مستقل قربت سفارتی آپشنز کو محدود کر دیتی ہے۔
ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کے تناظر میں اس خدشے کو مدِّنظر رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اہم مالیاتی اداروں پر امریکہ کے اثرورسوخ کی سطح غیر معمولی ہے۔ کشیدگی بڑھنے کی صورت میں امریکہ اور اس کے طاقتور ادارے پاکستان کے ایشیائی اور یورپی ڈونرز پربھی فیصلہ کن حد تک اَثر ڈال سکتے ہیں۔ پابندیوں کی صورت میں بین الاقوامی سرمایہ کاری پر بھی یقینی طور پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کی سطح اِن حالات میں غیر معمولی حد تک گر سکتی ہے۔
رہی بات ڈونلڈ ٹرمپ کی تو وہ بحیثیت سیاست دان بلا شبہ ایک متنازع شخصیت ہیں۔ ان کے خیالات خود امریکی قوم کی اپنی روشن خیالی، بلاامتیاز حق و عدل کی بنیاد پر قائم سیاسی نظام اور خالصتاً امریکی جمہوری روایات سے ہم آہنگ نہیں۔ سفید فام شہریوں میں بھی وہ صرف اُس خوش حال اکثریت کو امریکہ کا حقیقی وارث سمجھتے ہیں جس کی مادری زبان انگریزی ہے۔ وہ غیر ترقی یافتہ دنیا کو امریکہ پر بوجھ اور مغربی یورپ سمیت امریکہ سے باہر موجود ترقی یافتہ ممالک کو امریکہ کا مقروض سمجھتے ہیں۔
لگتا ہے کہ ٹرمپ آج بھی اُن اربوں ڈالرز کی ادائیگی اور شرائط سے متعلق تفصیلات سے واقف نہیں جن کا وہ اکثر ذکر کر بیٹھتے ہیں۔ پوری تقریر میں اس جانب اشارہ تک نہ تھا کہ مذکورہ رقم کا بیشتر حصہ تکنیکی اعتبار سے ’بیرونی امداد‘ کے زمرے میں آہی نہیں سکتا۔ دنیا جانتی ہے کہ اِن اربوں ڈالرز کا بڑا حصہ اُس رقم پر مشتمل ہے جوافغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے آپریشنز کے سلسلے میں پاکستان کی جانب سے دی گئی سہولتوں اورعملی معاونت کے بدلے میں (پاکستان کو) واپس کی جاتی ہے۔ ادائیگی کے معاملات میں بھی پاکستان کو بہت سی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ لیکن اِن حقائق کی نشاندہی دراصل ٹرمپ کی تقریر کے اصل مقاصد کو متاثر کرسکتی تھی لہٰذا ان کے لئے ضروری تھا کہ ’اربوں ڈالرز کی امداد‘ کا معاملہ فی الحال صرف امریکی نقطہ نظر سے ہی بیان کیا جائے۔
وہ پاکستان میں جن انتہا پسندوں کی موجودگی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں، اُن کی پیداوار، افزائش اور انہیں فراہم کردہ مستقل تحفظ سے متعلق امریکہ اور اِن کی اپنی ری پبلکن پارٹی کے کردار پراب اُن کا اپنا موقف جاننا یقیناً ایک دلچسپ معرکہ ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے کسی ری پبلکن صدر کے منہ سے ایسی باتیں سُن کر تجاہل عارفانہ کا گمان ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی کو پچھلی کوئی دو صدیوں سے مسلح روسی پیش قدمی سے خوفزدہ رہنے کی بیماری برطانویوں سے ورثے میں ملی ہے۔ پہلے انگریز راج افغانستان اور ہندوستان کو زاروں کے روس سے لاحق حقیقی اور غیر حقیقی ’خطروں‘ سے بچاتا رہتا تھا اور پھر سال 1946 سے 1989تک جاری سردجنگ میں کمیونسٹ روس کے خلاف زیادہ تر منصوبہ بندی ری پبلکن صدور کی ہدایات پر کی گئیں۔ انتخابات میں ٹرمپ کی ڈیموکریٹک حریف ہلیری کلنٹن کو کم از کم اِن تمام تر حقائق اور پاکستان پر اِن کے منفی اثرات کا بخوبی ادراک تھا لہٰذا وہ اس معاملے میں امریکہ کو واضح طور پر موردِ الزام ٹھہرا چکی ہیں۔
امریکی و اتحادی افواج پچھلے پندرہ برسوں سے افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن تازہ اطلاعات ہیں کہ ملک کا کوئی چالیس فیصد حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ اگر اِن طاقتور افواج کی کارکردگی یہ ہے تو پھر مٹھی بھر انتہا پسندوں کا پاکستان آکر چھپ جانا کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ خاص طور پر ری پبلکنز جنہوں نے اِن عناصر کی پشت پناہی کیلئے پاکستان میں یہ راستے ہموار کئے تھے! لہٰذا کسی بھی امریکی صدر، خاص طور پر ری پبلکن صدر، کی اوّلین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان سے توقعات وابستہ کرتے وقت ماضی سے جڑے تمام حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے بات آگے بڑھائے۔ لیکن اِس سے پہلے اگر افغانستان کا چالیس فیصد حصہ طالبان سے آزاد کرالیا جائے تو امریکیوں کو پاکستانیوں کا بھرپور اعتماد بھی حاصل ہوجائے گا۔ جدید سفارت کاری میں اعتماد دھمکی سے کہیں زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔

تازہ ترین