• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکی کے بعد پاک امریکہ تعلقات خاصے کشیدہ ہوچکے ہیں۔ اب امریکہ کی ہلہ شیری پر ہندوستان بھی پاکستان دشمنی میں کھل کر سامنے آچکا ہے۔ انڈین آرمی چیف بپن راوت نے حسب توقع یہ زہر اگلا ہے کہ پاکستان نے پراکسی وار چھیڑ رکھی ہے جس کے سنگین نتائج نکلیں گے۔ تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے امریکی نائب خارجہ ایلس ویلز کو ان حالات میں پاکستان کا دورہ کرنے سے روک دیا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے مگر بدقسمتی سے کبھی بھی ہمارے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہوسکے۔ 27جنوری 2011کو بھی امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں 3بے گناہ پاکستانیوں کے قتل کے واقعہ نے بھی پاکستانی سیاست میں کہرام مچا دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب’’دی کنٹریکٹر‘‘ شائع ہوئی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی اس کتاب میں کئی انکشافات کئے ہیں۔ وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں اٹھنے والے سوالات کا معاملہ من حیث القوم شرمندگی کا باعث ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ حکم دیں تو ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر حکومت تحقیقات کرانے کے لئے تیار ہے۔ ریمنڈ ڈیوس لکھتا ہے کہ ’’میں نے چار سال امریکی فوج میں گزارے۔ وہاں سے فراغت کے بعد میں نے سوچا کہ کالج جائوں اور فٹبال ٹیم جوائن کرلوں لیکن اسپیشل فورسز نے میری منصوبہ بندی کو چکنا چور کردیا۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ میں27جنوری 2011کے واقعہ سے ہفتہ بھر پہلے ہی لاہور آیا تھا۔ یہ گزشتہ دو سال کے دوران میرا پاکستان کا نواں دورہ تھا۔ میں نے نصف وقت افغان سرحد کے قریبی شہر پشاور جبکہ نصف لاہور میں بسر کیا تھا۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی کا شہر لاہور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت ہے اور یہ لاتعداد مساجد، تعلیمی اداروں اور مارکیٹوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ شہر میں سیر کے دوران ہم کو خیال رکھنا تھا کہ کسی ناخوشگوار واقعہ کا سامنا نہ ہو۔ بطور سیکورٹی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس اپنی کتاب میں اعتراف کرتاہے کہ ہمیں پاکستان میں بہت سے اہم امریکی افراد کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔ غیر ملکی علاقہ ہونے کے باوجود میرا کام غیر معمولی تھا اور یہ وہ راستہ تھا جسے میں نے پسند کیا۔ ہم ایک عظیم کام کررہے تھے‘‘۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ’’کرائے کے فوجی‘‘ کی اشاعت کے بعد کئی نئے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے گزشتہ ہفتے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی دیت24کروڑ روپے حکومت پاکستان نے ادا کئے ہیں۔ امریکہ نے یہ رقم نہیں دی تھی۔ سوال یہ ہے کہ3بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو آخر کس کے دبائو پر پاکستان سے امریکہ بھجوایا گیا تھا؟ اور کس کے کہنے پر قومی وقار، عزت اور غیرت وحمیت کو دائو پر لگایا گیا تھا؟ اُس وقت امریکی حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کو اپنا سفارتکار ڈکلیئر کیا تھا اور پاکستانی حکومت نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے حوالے کردیا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس نے ثابت کردیا ہے کہ امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر تنظیم کے ہزاروں جاسوس کیسے پاکستان میں داخل ہوئے اور انہیں بڑی تعداد میں پاکستانی ویزے کس طرح حاصل ہوئے؟ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی تو میڈیا میں اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے ہزاروں امریکیوں کو ویزے جاری کئے تھے ریمنڈ ڈیوس بھی انہی میں سے ایک تھا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے امریکی جاسوس کو تو چھوڑ دیا مگر پاکستان کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ابھی تک واطن واپس نہیں لا سکے۔ ماضی میں ایسے کئی قیمتی مواقع ہمیں ملتے رہے مگر ہمارے حکمرانوں نے کبھی اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نجانے کیوں وہ امریکہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرنے سے ڈرتے رہے؟ حالانکہ یہ ایک انسانی ہمدردی کا معاملہ تھا۔ یہ قوم کی بیٹی کی عزت اور غیرت کی بات تھی۔ ہمارے ارباب اقتدار کتنے سنگدل واقع ہو ئے ہیں کہ امریکہ میں عافیہ صدیقی کی قید ناحق کا یہ پندرہواں سوال ہے اور یہ عیدالاضحٰی تیسویں عید ہوگی جو امریکی قید میں گزرے گی۔
اب کچھ تذکرہ ہو جائے ملک کی معروف اصلاحی، فکری اور علمی تنظیم تحریک رحمت کا! جناب خواجہ محمد اسلم تحریک رحمت کے روح رواں ہیں۔ ہمارے دانشور دوست جناب منشا قاضی بھی ان کے ساتھ اس نیک مشن میں دعوت وتبلیغ کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جناب منشا قاضی نے مجھے تحریک رحمت کے اغراض ومقاصد اور درویش صفت انسان جناب خواجہ محمد اسلم کے بارے میں بتایا کہ تحریکِ رحمت کا ایک نکاتی منشور ہے کہ عوام کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لایا جائے۔ دوسرے لفظوں میں، انسانیت جو فرعونوں، ہامانوں، قارونوں اور آزروں کے چُنگل میں پھنس کر لذتِ حیات سے محروم ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں لوگ زندوں میں ہیں نہ مُردوں میں، تن من دھن کے ساتھ جدوجہد کر کے اُن کے بنیادی انسانی حقوق بحال کروا کر ان کو لذتِ زندگی سے آشنا کیا جائے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ امیر تحریک رحمت خواجہ محمد اسلم ایم اے او کالج، امرتسر، میں زیرتعلیم تھے کہ تقسیمِ ہند ہوئی اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ ہجرت کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ آپ نے تجارت کو بطور پیشہ منتخب کیا اور دیکھتے دیکھتے ترقی کی کئی منازل طے کر گئے۔ تجارت کے سلسلے میں دنیا کے تقریباً نصف ممالک کی سیاحت کا موقع ملا۔ یہ سب کچھ ہوا مگر امتدادِ زمانہ اور زندگی کے نشیب و فراز خواجہ صاحب کے قلب سے حصولِ علم کا شوق کم نہ کرسکے۔ حُسنِ اتفاق سے، اُن کی ملاقات مشہورِ زمانہ عظیم دانشور، فلسفی و حکیم، مفکّر و محقِق، سیرت نگار و مفسرِ قرآن ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ایم اے ڈی لٹ، سابق وائس چانسلر، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور، سے ہوئی۔ نگاہِ مردِ مومن نے خواجہ صاحب کی کایا پلٹ دی۔ اُن کے شوقِ حصولِ علم نے انگڑائی لی۔ کاروبار کو نوخیز بیٹوں کے سپرد کیا اور خود ڈاکٹر صاحب کے آگے زانوے تلمذّ طے کیا اور اُن کی وفات (14اپریل1997 ) تک، یعنی مکمل سولہ سال، اُن کی شاگردی میں گزار دیئے۔ اُن سے علم حاصل کیا اور قُرآنِ حکیم کا مطالعہ بالحق اور اُس کی آیات پر حکیمانہ غورو فکر کرنا سیکھا۔ 1984میں ڈاکٹر نصیر احمد ناصر اور خواجہ صاحب نے مل کر تحریک رحمۃ’‘ للعالمینی کے نام سے تحریک رحمت کی بنیاد رکھی۔ 1997میں ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد دوستوں نے تحریک رحمت کی امارت خواجہ صاحب کو تفویض کردی۔ اس وقت خواجہ صاحب کی عمرستاسی (87)سال سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس بڑھاپے کے باوجود وہ آج تک تن من دھن کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہیں، اس یقین محکم کے ساتھ کہ سرمایہ داری نظام کا قَلع قَمع ضرور ہوگا اور اُس کی جگہ نظام اسلام نافذ ہوگا کیونکہ یہ احکم الحاکمین کی مشیّت بھی ہے اور پیغمبراعظم و آخر ﷺ کا فرمان بھی۔ میری یہ دلی خواہش تھی کہ خواجہ صاحب کی قیمتی نگارشات کتابی صورت میں منصہ شہود پر آجائیں کیونکہ یہ نسخہ کیمیا انسانوں کے روحانی اور مالی بیماریوں کی مکمل شفا کا سبب ہے۔ یہ خواجہ صاحب کے 35 سالہ مطالعہ اور غور و فکر کا نچوڑ بھی ہے اور اُن کی زندگی میں حیرت انگیز انقلابی تبدیلی کا مینارۂ شوق بھی۔ خواجہ محمد اسلم کی یہ محنت شاقہ اور مہارتِ تامہ موصوف کے اخلاص کا نتیجہ ہے۔ حکمرانوں سے لے کر عوامی نمائندوں کو جو بھی قرآنی نظام کے بارے میں مکمل معلومات کے خواہش مند ہیں وہ تحریک رحمت کے دفتر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین