• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے تقریباً دس سال کی سماعت کے بعد سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا ہے مگر یہ طے نہیں ہو سکا کہ قاتل کون ہے؟ مقدمے کی سماعت کے دوران سات جج تبدیل ہوئے۔ فیصلہ آٹھویں نے سنایا۔ 5طالبان ملزم ٹھوس شواہد نہ ہونے پر بری کر دیئے گئے مگر رہائی کی بجائے مزید ایک ماہ کے لئے جیل بھیج دیئے گئے۔ دو پولیس افسروں کو فرائض میں غفلت برتنے پر سترہ سترہ سال قید اور دس دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی گئی۔ سابق آمر جنرل پرویزمشرف کوجن کے دور میں یہ قتل ہوا، بار بار طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیا گیا اور جائیداد کی قرقی کا حکم صادر ہوا۔ اس کے علاوہ گرفتاری کے دائمی وارنٹ جاری کئے گئے۔ طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود سمیت سات ملزموں کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا جو گرفتار تو نہ ہو سکے لیکن مختلف واقعات میں مارے گئے مقدمے کی پیروی کرنے پر ایف آئی اے کے ایک اسپیشل پراسیکیوٹر دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ محترمہ بے نظیر کے تینوں بچوں بلاول، بختاور اور آصفہ کے علاوہ پیپلزپارٹی نے بھی فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور قانونی آپشن اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ محترمہ کے شوہر سابق صدر آصف زرداری کہتے آئے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ قتل کس نے کیا؟ مقدمہ ان کے 5سالہ دور حکومت میں بھی چلتا رہا مگر تمام تر حکومتی وسائل اور اختیارات ہونے کے باوجود ان کی حکومت کیس کو انجام تک نہ پہنچا سکی آخر مصلحت کیا تھی؟ یہ اور اس طرح کے کئی دوسرے سوالات ابھی تک زبان زد خاص و عام ہیں۔ گویا فیصلہ تو آگیا۔ قتل کا معمہ ہنوز حل طلب ہے پیپلزپارٹی جومقدمے کی فریق نہیں۔ حکومت وقت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے حکومت کی جانب سے ایف آئی اے ا پیل کر سکتی ہے۔ سزا یافتہ پولیس افسر بھی اپیلیں دائر کریں گے مقدمہ پھر چلے گا اور توقع کی جانی چاہئے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر اصل قاتل کی نشان دہی بھی ہو جائے گی۔ انصاف مل ہی جائے گا۔

 

.

تازہ ترین