• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں طوفانی بارشوں نے جس طرح سے کاروبارزندگی کو متاثر کیاہے وہ خاصا پریشان کن ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی کا 95فیصد کاروبار بند رہا۔ مئیر کراچی وسیم اختر نے ان مشکل حالات سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے ناقص منصوبہ بندی کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہرایا ہے ۔انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت کو سیوریج صاف کرنے کے انتظامات کرنا چاہیے تھے۔ وسیم اختر واحد میئر ہیں جو سیوریج کی صفائی کا کام صوبائی حکومت پر ڈال کر اپنے آپ کو ’’مکتی ‘‘فراہم کررہے ہیں۔سیوریج ٹھیک کرنا اگر صوبائی حکومت کا کام ہے تو یقینا ان کے نزدیک کارپوریشن اور بلدیات کا کام آئین سازی ہوگا؟ میئرصاحب کراچی میں بارشوں اور نکاس آب کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈال رہے ہیں ان کے نزدیک بلدیاتی حکومت کے فرائض کیاہوتے ہیں ؟ بلدیہ ٹائون جیسے قومی سانحات جس میں 258افراد زندہ جل گئے تھے کراچی کے معاشرتی چہرے کوابھی تک جھلسائے ہوئے ہے۔12مئی کا سانحہ بھی تو عروس البلاد میں رونما ہوا تھا ۔اس وقت میئر صاحب ،منسٹر صاحب ہوا کرتے تھے۔ 12مئی کراچی کے لئے ایک نحس دن تھا جب ’’عوامی طاقت کا مظاہرہ ‘‘ کرتے ہوئے 54افراد کی لاشیں گرائی گئی تھیں اور رات کو پریڈ گرائونڈ اسلام آباد میں جنرل مشرف نے جھومتے ہوئے مکا لہرایاتھا۔ مشرف نے کہاتھاکہ عوامی طاقت کے سامنے جو بھی آئے گا’’کچلا جائے گا‘‘۔کیا اس لرزہ خیز واردات کی ایف آئی آر بھی پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے خلاف کٹوائی جائے؟سیاست کی یہ نیک پروین جسے پی پی پی کہاجاتاہے اپنا دکھڑا یوں بیان کرتی دکھائی دیتی ہے کہ
اسی کا شہر ، وہی مدعی ،وہی منصف
ہمیں خبر تھی ،ہماراقصور نکلے گا
چھوٹے میاں (شہبازشریف ) میرے فیورٹ ہیں۔میں ہمیشہ ان کی شخصیت میں موجزن فلمی اسٹائل کے جذبات اوران کے والہانہ اظہار کو انجوائے کرتاہوں۔انہوں نے کہاہے کہ’’ خدانخواستہ میرے مرنے کے بعد بھی اگر ایک دھیلے کی کرپشن سامنے آجائے تو قبر سے میری لاش نکال کر لٹکا دیں‘‘۔جب سے بڑے میاں نااہل ہوئے ہیں وہ بھی جذباتی انداز سے پوچھ رہے ہیں کہ ’’جواب دیجئے !مجھے کیوں نکالا، میرا قصور کیاتھا‘‘۔ حفظِ مراتب کے لحاظ سے شہنشاہ ِجذبات تو بڑے میاں صاحب ہیں،مگر چھوٹے میاں کی نہایت اعلیٰ پایے کی پرفارمنس کو نظر انداز کرنا بھی ناقدر شناسی ہوگی۔ ناقدین فن ان کی بے مثال اداکاری پر انہیں ڈپٹی یا معاون شہنشاہ ِجذبات قرار دے رہے ہیں۔ قتیل شفائی نے بھی ایسے ہی اعلیٰ پایے کے سچے ’’مجرمان‘‘ کی وکالت کرتے ہوئے کہاتھاکہ
پکڑا ہی گیاتو مجھے دار پہ کھینچو
سچاہوں مگر اپنی وکالت نہیں کرتا
وکیل یہ بھی کہتے ہیںکہ میاں نوازشریف کا مقدمہ درست انداز میں نہیںلڑا گیااسلئے انہیںنااہل ہونا پڑا۔بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاہے کہ بھٹو کامقدمہ بھی ان کے وکیلوں نے ہرایااگر ان کا مقدمہ صحیح طریقے سے پیش کیاجاتاتو انہیں پھانسی کی سزا نہ ہوتی۔بیرسٹر صاحب کی خوشی فہمی کے حوالے سے کیاکہاجائے عالمی سازش جنہیں مقامی وقوعہ دکھائی دے رہاہے۔ امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کی نظر میں بھٹو صاحب نے اسلامی ممالک پر مشتمل الگ بلاک اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے ساتھ کئی ایک ’’فاش غلطیاں‘‘کیں۔امریکی سیکرٹری اسٹیٹ اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہنری کسنجر نے بھٹو صاحب کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہونے کے لئے امریکہ کا پیغام پہنچایا تھا۔ اگست 1976کی بات ہے بھٹو صاحب کے انکار پر ہنری کسنجر نے یہاں لاہور میں دھمکی دیتے ہوئے کہاتھاکہ
‘‘Then we will make a horrible example of you !’’
جنرل ضیاالحق کا مشن جاری رکھنے والے سیاستدان بھٹو جیسے عظیم محب وطن کے ’’عدالتی قتل‘‘ کے بعد بھی شہید کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار قراردیتے رہے ہیں۔ بعدازاں انہیں جب عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہلیت کا خطرہ لاحق ہوا تو آرڈر پر مال تیار کرنے والے ہاف بوائلڈ دانشور بھٹو صاحب اور میاں نوازشریف کے درمیان سیاسی مماثلت تلاش کرنے لگے۔ بھٹو اور نوازشریف کی سیاست اور شخصیت میں اتنا ہی فرق ہے جیسے( خطِ اِستوا) پر مشرق اور مغرب یکسر مختلف سمتوں کا پتہ دیتے ہیں۔ میاں نوازشریف پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کئے گئے۔ دوم ان کے وسیع تر کاروبار کے باوجود بھی ان کے اثاثے اور پرتعیش زندگی کے سامنے معاشیات اورحساب کتاب کے تمام اصول زمین بوس دکھائی دیئے گئے۔ بھٹو صاحب کی دیانتداری، سیاسی ذہانت اور عالمی امور کو سمجھنے بوجھنے کی صلاحیتیں تو انہیں کوئی دیومالائی کردار ثابت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ عہدِحاضر کے ریڈی میڈ ارسطوئوں اور سقراطوں کے لئے توآصف زرداری بھی پاکستانی نیلسن منڈیلابن کر سامنے آئے ہیں۔ کرپشن کے آخری مقدمے میں بھی باعزت بری ہونے کے بعد انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے والوں کو اب اپنی آستینیں چڑھا لینی چاہئیںتاکہ وہ بہادروں اور سورمائوں کا ’’زیور‘‘ پہن سکیں۔ اس مبارک موقع پر مجھے 90کی دہائی میں قائم کیا گیا وہ میڈیا سیل بھی یاد آگیاجس میں ’’رائٹ ہینڈ ڈرائیورمیڈیا مین‘‘ (پرانی اصطلاح کے مطابق دائیں بازو کے حامی نظریات سے وابستہ صحافی حضرات) جنہوں نے پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کو ’’ٹین پرسنٹ‘‘ کے ٹائٹل سے نوازا تھا۔ آج انہیں اپنی فنی اور پیشہ ورانہ خرابی پر معذرت کرنی چاہئے۔
سیاست کی بساط پر جہاں پیپلز پارٹی کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے وہاں شہید بی بی بے نظیر بھٹو کے قتل کیس کے فیصلے سے پارٹی کا نیاامتحان شروع ہوگیا ہے۔ محترمہ کے قتل کیس میں گرفتار 5طالبان کی بریت کے فیصلے کو مدعیوں سمیت عوام نے بھی مسترد کردیا ہے۔ قانونی ماہرین نے سخت تنقید کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کو ناقص قرار دیا ہے جس میں اس ہائی پروفائل مرڈر کیس میں ماسٹر مائند (مرکزی ملزم) کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ بے نظیر بھٹو جیسی عالمی سطح کی لیڈر کے یوں سرعام قتل سے پاکستان کی سیاست، معاشرت اور ریاست پر کئی ایک سوالات اٹھتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور انہیں سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ خاص طور پر اندرون اور بیرون ملک سیکورٹی کے ذمہ دارادارے اپنا فرض ادا کریں وگرنہ سمجھا جائے گا کہ دانستہ پہلو تہی کی جارہی ہے۔ مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ بینظیر قتل کیس میں پولیس افسروں کو غفلت برتنے پر سزادی گئی جبکہ مجرموں کو بری کردیا گیا۔ محترمہ بی بی کا قتل ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا تسلسل تھا، بی بی کے قتل کے پیچھے بھی وہی لوگ اور طریقہ کار تھا، سامنے کسی اور کو کیا، ہاتھ کسی اور کے استعمال ہوئے۔ چانڈیو نے کہا کہ میں بی بی بے نظیر بھٹو کاقاتل جنرل پرویز مشرف کو سمجھتا ہوں۔
یہ بھی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کرائم سین دھونے کا حکم جنرل ندیم اعجاز نے دیا تھا لیکن انہیں چالان نہیں کیا گیا۔ یہ طے ہے کہ سعود عزیز نے کسی کی یقین دہانی پر کرائم سین دھونے کا ذمہ اپنے سرلیا۔ صحافی شکیل انجم کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بی بی کے قتل میں جنرل مشرف کی لائن اختیار کی اور اسکے سُرخیل رحمان ملک تھے۔ شکیل انجم کی تجویز ہے کہ اگر رحمن ملک کو کسی اچھے ایس ایچ اوکے حوالے کر دیا جائے تو سارے راز کھل کر سامنے آجائیں گے کہ کون مجرم تھا اور کس نے کیا کروایا۔ کیا بھٹو کی پارٹی بی بی کے اصل قاتلوں کے خلاف مدعی بنے گی؟

 

.

تازہ ترین