• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ میں بعض مماثلتیں اور اتفاقات نہایت عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ جن میں دوسرے انسانوں کے لئے کئی ’’سبق ‘‘ مضمر ہوتے ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور عمران خان کے حوالے سے ایسے ہی کچھ دلچسپ ’’اتفاقات‘‘ قارئین کی نذر ہیں۔ پہلا اتفاق یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز جس پارٹی سے کیا اس کا نام تحریکِ استقلال تھا۔ جس کے قائد ائیر مارشل (ر) اصغر خان تھے اور جس سیاسی پارٹی کے ہاتھوں اُن کے سیاسی سفر کا اختتام ہوا اس کا نام تحریکِ انصاف ہے جس کے سربراہ عمران خان ہیں۔ تحریکِ استقلال 70کی دہائی کی ایک مقبول پارٹی تھی اور اصغر خان کو اپنے وقت کے مقبول ترین سیاسی رہنما جناب ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی سیاسی حریف ہونے کا اعزاز حاصل تھا بالکل عمران خان کی طرح جو موجودہ سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کے سخت مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اصغر خان بھی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انتہائی سخت زبان بولا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ تو انہوں نے جوشِ خطابت میں بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ جس طرح عمران خان آجکل میاں برادران کو ماڈل ٹائون کیس کے حوالے سے اڈیالہ جیل بھیجنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ دوسرا اتفاق یہ ہے کہ 1977میں جناب بھٹو کے خلاف مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے ایک تحریک چلی جس میں اصغر خان پیش پیش تھے۔ اسی طرح 2014میںعمران خان نے میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلائی۔ پی این اے کی تحریک کے دوران جب 4جولائی1977کو پیپلز پارٹی اور پی این اے کے درمیان نئے انتخابات کے سلسلے میں معاہدہ طے پا چکا تھااور 5جولائی کو اس پر دستخط ہونے والے تھے تو جنرل ضیا نے ملک میں مارشل لانافذ کردیا۔ اس سلسلے میں پی این اے کی ایک لیڈر بیگم نسیم ولی خان نے یہ انکشاف کیا کہ اصغر خان کسی قیمت پر بھی مسٹر بھٹو کے ساتھ معاہدہ کرنے کے مخالف تھے اور انہوں نے کہا کہ فوج کو آنے دو وہ نوے دن کے اندر منصفانہ انتخابات کروا دے گی۔ یہ وہی مدّت ہے جس کا اعلان جنرل ضیا نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ نوے دن پاکستان کی بد قسمت سیاسی تاریخ میں گیارہ سال پر محیط ہوگئے۔ جنہوں نے پاکستان کے ہر ادارے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ۔ اور اسے کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا۔ جنرل ضیا کی سیاہ آئینی ترامیم نے آئین کا حلیہ بدل کر رکھ دیا۔ اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ پہلے اسکی آئینی ترمیم 58-2-Bنے اپنے سیاسی وارث میاں نواز شریف کی حکومت سمیت تین منتخب حکومتوں کا سر قلم کیا جس میں اسکا بیٹا اعجاز الحق بھی وفاقی وزیر تھا اور بعد میں اسی کی ایک اور آئینی ترمیم 62-63نے بالآخر اس کے سیاسی وارث میاں نواز شریف کے سیاسی کیریئر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حال ہی میں چشمِ فلک نے یہ تماشا بھی دیکھا کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد نئے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی جب اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے گئے تو ان کے تجویز کنندہ اعجازا لحق ان کے ساتھ کھڑے تھے جن کے والد ضیاء الحق کی وجہ سے میاں نواز شریف تا حیات نا اہل قرار پائے تھے اور اقتدار نئے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو منتقل ہوگیا جو جنرل ضیا کے گہرے دوست اسکواڈرن لیڈر خاقان عباسی کے صاحبزادے ہیںاور بقول شاہد خاقان عباسی اُن کے ضیا خاندان کے ساتھ پچاس سالہ پرانے تعلقات ہیں۔ گویا غور کیا جائے تو اقتدار ایک مرتبہ پھر ضیا الحق کے قریبی حلقے میں منتقل ہوگیا ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف بھی 2014میں عمران خان نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا شروع کیا۔ اور اصغر خان کی طرح یہ بیان بھی دیا کہ ’’ ایمپائر ‘‘ کی انگلی جلد کھڑی ہونے والی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مرتبہ سیاستدانوں نے زیادہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا اور اس پیپلز پارٹی نے بھی میاں صاحب کی حکومت بچانے میں اُن کا ساتھ دیا۔ جو ہمیشہ پیپلز پارٹی کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ بھٹو اور پیپلز پارٹی کا نام سن کر ان کا خون کھولنے لگتا ہے اور بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ پیپلز پارٹی سے محاذ آرائی نے ہی انہیں لیڈر بنایا ہے۔ یہاں جاوید ہاشمی کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ انہوں نےبیگم نسیم ولی خان کے برعکس، بروقت یہ راز کھول دیا کہ عمران خان کس ’’ایمپائر‘‘کی انگلی کے منتظر تھے ۔ تحریکِ استقلال سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے میاں نواز شریف کو کامیابی اس وقت ملی جب جنرل غلام جیلانی کے ذریعے ضیا کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ اور ان کے دستِ راست بن گئے 1981سے لیکر 1999تک تقریباََ 18سال وہ ہر سیاسی سازش اور انتخابی دھاندلی میںشریک رہے۔ تین مرتبہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو سازشوں کے ذریعے ختم کیا۔ معافی مانگ کر سعودی عرب چلے گئے اور بالآخر اپنے عروج کے زمانے میں مکافاتِ عمل کا شکار ہو گئے۔ دوسری طرف اصغر خان جو خود کو ذوالفقار علی بھٹو کے متبادل کے طور پر وزیرِ اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے اور بھٹو کے خلاف سب سے بڑے ’’سازشی مہرے‘‘ تھے۔ خود بھی جنرل ضیا کی سازش کا شکار ہوگئے جس نے انہیں پانچ سال کے لئے گھر میں نظر بند کر دیا اور اقتدار کو ان کے لئے شجر ِ ممنوعہ بنا دیا۔ یوں لگتا ہے کہ تاریخ چند استثنا کے ساتھ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ میاں نواز شریف تو مکافاتِ عمل کا شکار ہو چکے کہ وہ جو کچھ محترمہ نے نظیر بھٹو کے ساتھ کرتے رہے تھے اُن کے ساتھ بھی ہوگیا اب شاید باری عمران خان کی ہے کہ اصغر خان کی طرح انہوں نے حکومت تو گرادی ہے لیکن شاید اقتدار اُن کے لئے بھی’’ شجرِ ممنوعہ ‘‘ ہی ثابت ہو کہ 62-63کی تلوار اُن کے سر پر بھی لٹک رہی ہے۔

 

.

تازہ ترین