• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے جب علامہ اقبال نے اپنی دو مشہور نظمیں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ پیش کی تھیں۔ اپریل 1911ء میں اسلامیہ کالج لاہور کے ریواز ہاسٹل کے صحن میں انجمن حمایت اسلام کا اجلاس ہوا، اس اجلاس میں علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’شکوہ‘‘ سنائی۔ لوگوں نے اقبال پر خوب گل پاشی کی۔ 1913ء میں مولانا ظفر علی خان نے موچی دروازہ لاہور کے باہر ایک بڑے جلسہ عام کا اہتمام کیا۔ علامہ اقبال نے اس جلسے میں نماز مغرب کے بعد اپنی نظم ’’جواب شکوہ‘‘ سنائی، یہ نظم بھی لوگوں نے بہت پسند کی۔ یہ نظم بہت فروخت ہوئی اور اس کی آمدن ایک خصوصی فنڈ کو دے دی گئی۔
میں نے زندگی میں کئی مرتبہ سوچا کہ ان نظموں کے بعد علامہ اقبال پر کیوں فتوے لگا دیئے گئے۔ فتویٰ فروشوں کے فتوئوں نے شاعر مشرق کو پریشان کیا، انہیں ان سارے فتوئوں کے جواب میں میاں شیر محمد شرقپوریؒ سے فتویٰ حاصل کرنا پڑا، پھر وقت ایسا بھی آیا کہ جن لوگوں نے علامہ اقبال کے خلاف فتوے دیئے تھے، ان کی تقریریں شاعر مشرق کے اشعار کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھیں، ماضی کے فتویٰ فروشوں کے پیروکار آج بھی اقبال کی شاعری کے محتاج ہیں جس شاعر نے مسلمانوں کی حالت کا درست نقشہ کھینچا، اسے فتوئوں کا سامنا کرنا پڑا، ایسا کیوں ہوا؟ میںنے ایک دن اپنے مرشد سے پوچھا کہ آپ اوراقبالؒ ایک ہی روحانی استاد کے دو شاگرد ہیں، اقبالؒ کے خلاف اتنے فتوے کیوں آئے؟ کچھ دنوں کے بعد انہوں نے مجھے چند ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ’’فتویٰ فروش چودہ سو سال سے اپنا کام کررہے ہیں جبکہ ہم لوگ اپنا کام کررہے ہیں، ہم فرات کے کنارے اس طرف تھے جس طرف جلے ہوئے خیمے تھے، صرف چند لوگ تھے جبکہ فتویٰ فروش دوسری طرف تھے یعنی وہ ظالموں کے ساتھ تھے، چودہ سو سال بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے، کبھی بلھے شاہؒ پر فتویٰ لگ جاتا ہے تو کبھی شاہ حسینؒ پر، بس فتوئوں کی پروا کئے بغیر ہمیں اپنا کام جاری رکھنا چاہئے، ہم مسلمانوں کے اتحاد کے لئے کوشاں ہیں، مسلمان متحد ہو کر ہی کچھ پا سکتے ہیں، فرقہ بندیوں میں تقسیم ہو کر تو صرف رسوائی مل سکتی ہے‘‘۔
مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ایک صدی پہلے اس دھرتی کے ایک عظیم فرزند نے مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کی مگر وہ آج بھی سوئے ہوئے ہیں۔ اس عظیم فرزند علامہ اقبالؒ کے بارے میں حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ فرماتے ہیں’’اقبالؒ کی ادبی شخصیت عالمگیر ہے، وہ بڑے ادیب، بلند پایہ شاعر اور مفکراعظم تھے لیکن اس حقیقت کو میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بہت بڑے سیاستدان بھی تھے، مرحوم دور حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبالؒ سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔ مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع مل چکا ہے، میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا‘‘۔
ایک صدی اور چند برس پہلے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک عاشق رسولؐ نے دو نظموں کے ذریعے جگانے کی بھرپور کوشش کی مگر افسوس کہ امت مسلمہ آج بھی سوئی ہوئی ہے حالانکہ اس نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
آج برما (میانمار) میں مسلمانوں کے قتل عام نے مجھے ایک طرف مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی بے حسی، مسلمانوں کی بے بسی اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا نوحہ لکھنے پر مجبور کیا ہے تو دوسری طرف مجھے اقبالؒ کی دونوں نظمیں شدت سے یاد آئی ہیں۔
ایک لاکھ تیس ہزار شدید زخمی، ایک لاکھ جنگلوں میں محصور، بنگلہ دیش کی سنگدلی کے باعث کشتیوں میں سوار بیس ہزار سمندر میں بھٹکنے پر مجبور، پانچ روز میں اکیس سو دیہات مسلمانوں سمیت جلا دیئے گئے، 100کلومیٹر مسلم آبادی صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئی، 10ہزارافراد بھاگتے ہوئے شہید کر دیئے گئے، ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ یہ ہے میانمار (برما) کا بے ہودہ ’’چہرہ‘‘ جو خودکو سیکولر کہتا ہے۔ برما کی سرحدیں پانچ ممالک سے ملتی ہیں بنگلہ دیش، انڈیا، تھائی لینڈ، چین اور لوئس، برما میں مسلمان آبادی صوبہ رکھائن میں ہے، رکھائن کو اردو میں ارکان بھی کہتے ہیں۔مسلمانوں کے ایک مشہور خلیفہ ہارون الرشید نے کچھ مبلغین کو اس علاقے میں بھیجا تھا تب سے برما میں اسلام کا پودا لگا ہوا ہے۔ برما میں آج جو کچھ بھی ہورہا ہے۔ اس سے پہلے کئی بار ہو چکاہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے، 1559ء میں محض مذہبی عقائد کی بنا پر عیدکے موقع پر جانوروں کو ذبح کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ پھر اس کے بعد 1752ء میں جانوروں کے ذبح کرنے پر پابندی لگی تھی۔ 1782ء میں تو برما کے بادشاہ ’’بودھا پایہ‘‘ نے مسلمان علماء کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا تھا، انکار کرنےکی سزا موت تھی، اس واقعہ کے بعد برما کی تاریخ کے مطابق سات دن سورج برما سے ناراض رہا تھا، اس ظالم دھرتی پر سورج نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، پریشانی میں بادشاہ نے گناہوں کا اقرار کیا، معافی مانگی مگر برما کے بدھ مت، مسلمانوں کے خلاف ہی رہے وہ جب برطانوی راج سے آزادی کے لئے تحریک چلا رہے تھے تو مسلمانوں کو آگے کر کے اپنے لئے ڈھال بناتے تھے، 1938ء تک یہ ہوتا رہا، آزادی کے بعد برما مزید آزاد ہو گیا اور 1962ء میں اس کی فوجی حکومت نے مسلمانوں کو باغی قرار دے دیا یوں ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے قتل عام کی بنیاد رکھ دی گئی، مسلمانوں کی بدقسمتی کہ ان کی آزاد ریاست اراکان پر 1784ء میں برما نے مکمل قبضہ کر لیا، ایک صدی بعد یعنی 1884ء میں وہاں برطانوی راج قائم ہوگیا،برصغیر کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا مزار بھی میانمار (برما) کے شہر رنگون میں ہے۔
حیرت ہے بدھ متوں کا بانی گوتم بدھ کہتا تھا کہ جانوروں کو بھی مارنا حرام ہے مگر یہ کیسے مہاتما بدھ کے پیروکار ہیںکہ مسلمانوں کی لاشیں گرانے کا کام کررہے ہیں۔ مارچ 1942ء سے جون1942ء تک صرف تین مہینوں میں گوتم بدھ کے پیروکاروں نے ڈیڑھ لاکھ مسلمان شہید کئے اور پانچ لاکھ مسلمان بے گھر کردیئے۔ پھر جو سلسلہ 1962ء سے شروع ہوا وہ 1982ء تک وقفے وقفے سے جاری رہا، مسلمانوں کی نسل کشی ہوتی رہی۔ اس دوران لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑی، برما کی حکومت نے 1982ء میں سٹیزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے آٹھ لاکھ اوربرما میں موجود دوسرے چینی وبنگالی مسلمانوں کو اپنا شہری ماننے سے انکار کردیا اور مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے سے بھی روک دیا۔ برما میں ہمیشہ ظلم کی داستان نےاپنے پر پھیلائے۔ 1997ء میں سولہ مارچ کو دن دیہاڑے بے لگام بدھ متوں نے صوبے اراکان یعنی رکھائن کے شہر مندالے میں مسلم اکثریتی علاقوں پرحملہ کر کے ظلم کے پہاڑ توڑے۔ مئی 2001ء سے جولائی 2001ء تک برما میں مساجد اور مسلمانوں کو شہید کرنے کے کئی واقعات پیش آئے۔ برما میں جب 2011ء کو آمریت کا سورج غروب ہوا تو مسلمان سمجھے کہ شاید انہیں اب ان کے حقوق مل جائیں گے مگر پھر 2012ء میں ایک بدھ مت لڑکی نے اسلام قبول کیا کیا برما میں آگ لگ گئی بس پھر گوتم بدھ کے ماننے والے امن کے سارے سبق بھول کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ اکتوبر 2012ء میں جب مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے میانمار یعنی برما میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو برمی صدر نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس طرح کے دفاتر لوگوں کی خواہشات سے مطابقت نہیں رکھتے، میانمر کی آنگ سان سوچی بھی مسلمانوں کو صبر کی تلقین کرتی ہے، برما کی حکومت کوئی یو این مشن قبول کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے،ظلم کی نئی داستان کا سلسلہ 25اگست 2017ء کو شروع ہوا، ایک ہفتے کے اندر بیس ہزار سے زائد مسلمان جوان، بچے، بوڑھے اور عورتیں شہید کردی گئیں۔ یہ بے چار ےمسلمان جائیں تو کہاں جائیں، کچھ زمینی کیمپوں میں ہیں اور کچھ سمندر کی لہروں کے حوالے ہیں جنہیں کوئی ملک پناہ دینے کیلئے تیار نہیں، ان کے اپنے مسلمان بھائیوں نے بنگلہ دیش میں ان کے لئے دروازے بند کررکھے ہیں یہی صورتحال باقی ملکوں کی ہے۔ یہ کیسے مظلوم ہیں جن کے لئے دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ محمدﷺ کے نام لیوا بھی محمدﷺ کے ماننے والوں کو پناہ دینے کیلئے تیار نہیں، تم سے اینجلا مرکل اچھی، جس نے شام کے لوگوں کے لئے جرمنی کے دروازے کھول دیئے تھے۔ برما میں حالیہ آگ ایک جنونی رہنما کے باعث لگی ہوئی ہے بدھ متوں کا یہ رہنما آشین ویراتھو ہے، 49سالہ ویراتھو مسلمانوں کا دشمن ہے، یہی آگ لگاتا ہے پھر اس کو ہوا دیتا ہے۔ ویراتھو خود کو ہٹلر قرار دیتا ہے۔
جب ایک صدی پہلے علاقہ اقبال نے دو نظمیں لکھی تھیں تو مسلمانوں کے ہاں رسوائی تھی، آج مسلمان رسوائی سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، ایسا لگتا ہے ذلت ان کا مقدر بن چکی ہے، مسلمان ملکوں کے گونگے حکمران اپنے اپنے اقتدار کا ڈرامہ رچا کر خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں، کیا انہیں یاد نہیں کہ انہوں نے قبروں میں جانا ہے، روز محشر للہ کے پیارے نبیؐ نے اگر ان سے پوچھ لیا کہ میں نے مکہ میں خطبہ ٔ حج میں کہا تھا کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جب کسی ایک مسلمان کو تکلیف ہوتی ہے تو پورے عالم اسلام کو تکلیف ہوتی ہے ایسے ہی جیسے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم درد میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘ ایسی صورتحال میں مسلمان حکمرانوں کے پاس کیا جواب ہوگا؟ میرے خیال میں مسلمانوں کے پاس ایک ہی حل ہے کہ وہ ایک ہو جائیں، وہ ظالموں کے ہاتھوں کو فلسطین، کشمیر، برما اور دوسرے علاقوں میں روکیں، یہ کام عشق نبیؐ کی قوت ہی سے ممکن ہے۔ شاید اسی لئے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ؎
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کردے

تازہ ترین