• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 گزشتہ روز شمالی کوریا نے بذریعہ میزائل ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کرکے پوری دنیا خصوصاً امریکہ اور مشرقی ایشیا(جاپان، جنوبی کوریا، فلپائن اور متنازع تائیوان) میں تشویش ہی نہیں عملاً ایک بھونچال پیدا کردیا کہ جواباً شمالی کوریا کے کتنے ہی تجربات کے بعد اس بار جنوبی کوریا نے بھی ایک تباہ کن میزائل فضا میں داغ دیا ۔ واضح رہے کہ ایسا واشنگٹن کی تائید و حمایت کے بغیر نہیں ہوسکتا جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کا دور ہے۔ ایٹمی طاقت شمالی کوریا کے دعوے کے مطابق اس کا یہ چھٹا کامیاب ایٹمی تجربہ اس سے قبل کے آخری (پانچویں) تجربے سے 11گنا زیادہ طاقت کا حامل تھا۔ پہلے کے مقابلے میں اس کی کئی گنا طاقت کی تصدیق ہمسایہ جنوبی کوریا کہ اس پار سمندر میں ہائیڈروجن بم سےلدے داغے گئے بم کے چلتے ہی جو منصوعی زلزلہ پیدا ہوا اس کے جھٹکے جاپان تک محسوس کئے گئے۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ، انتہائی کم تر اقتصادیات کا حامل شمالی کوریا کا اپنے قیام سے ہی انہماک خود کو ایٹمی طاقت بنانے پر رہا ہے۔ اس کی کل قومی زندگی کا محور مکمل عدم تعاون کا عمل دفاعی قیادتوں پر سے مکمل عسکری رنگ میں رنگے ہوئے شمالی کوریا پر مسلط کم ال سنگ خاندان کا تسلط آنجہانی سوویت ایمپائر پر کمیونسٹ پارٹی کے تسلط سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ ایک تو امریکہ نے اس کے ایٹمی طاقت بننے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اسے دنیا میں بتدریج الگ تھلگ کردیا اور یہ (شمالی کورین حکومت) خود بھی دنیا سے الگ ہی رہنے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ بیچارے اڑھائی کروڑ شمالی کورین عوام انتہائی مظلوم قوم ہیں جنہیں انسانی زندگی کی انتہائی بنیادی سہولتیں خوراک اور ا دویات تک کا حصول محال اور محدود تر ہے۔اس کی 90فیصد بیرونی تجارت چین سے ہے، بیجنگ انتہائی بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی کے حوالے سے حق ہمسائیگی کا فریضہجاری رکھے ہوئے ہے لیکن اپنی دفاعی و عسکری پالیسی اور تیاری کے حوالے سے نارتھ کوریا چین کے معمولی اثر سے مکمل باہر ہے، لیکن امریکہ ہمیشہ چین ہی سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ کو مسلسل خطرناک مسلسل دفاعی تیاریوں کے حوالے سے محدود کرنے میں امریکہ کا ساتھ دے۔ چین نارتھ کوریا کی سفارتی تاریخ کا ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ چین اپنے کم تر تعلقات کا فائدہ اٹھا کر بھی ان معاملات میں شمالی کوریا کو محدود کرنے کی سفارتی کوششیں کرتا ہے جس پر وہ خود امریکہ اور بین الاقوامی برادری سے اتفاق کرتا ہے لیکن چین کی ہدف میں کامیابی بھی محدود ہی ہے۔
اصل میں جولائی 1953میں کوریا کی نظریاتی تقسیم (سرمایہ کار کوریا اور کمیونسٹ کوریا) کے بعد امریکہ اور سوویت یونین ہر دو کوریا کو اپنے زیادہ سے زیادہ دائرہ اثر میں لانے میں کامیاب رہے اور سوویت یونین نے ہی شمالی کوریا کو ’’ایٹمی کوریا‘‘ بننے کی راہ دکھائی، اسے یقین دلایا گیا کہ وہ اپنی موجودہ اقتصادی حالت میں رہتے ہوئے بھی یہ درجہ حاصل کر سکتا ہے۔ پھر اسے ایٹمی مواد فروخت کرنے کا معاہدہ کر کے یہ بھی فراہم کیا گیا واضح رہے کہ یہ وہ وقت ہے جب دوسری جنگ عظیم دوم کے بعد جاپان پر امریکی قبضہ اور پھر گہرا اثر تھا۔ فلپائن میں امریکی بحری بیڑہ موجود تھا۔ تائیوان انقلاب کے باغیوں کی آماجگاہ بن کر امریکہ کی حفاظتی چھتری میں آ گیا تھا اور جاپانی اپنا دفاع امریکہ کے ہاتھوں دے کر جنگ سے توبہ کر کے اپنی اقتصادی حیثیت بنانے پر تل گئے تھے۔ چین تو اس وقت اپنے انقلاب کا ڈھانچہ بنانے میں مصروف تھا۔ متحدہ کوریا، امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں اور جاپان مخالف قوم پرستوں کے سیاسی نظریات پر سیاسی و نظریاتی طور پر منقسم ہو چکا تھا۔ موجودہ شمالی کوریا کے جواں سال لیڈر کم جونگ ان کا والد کم (دوئمی ال سنگ) جاپانیوں کے خلاف جاپان میں گوریلا جنگ کی کمانڈ کرنے کے بعد شمالی کوریا واپس آ کر کمیونسٹ لیڈر کے طور پر ابھرا اور تادم موت (1994) برسراقتدار رہا۔ جیسے پاکستان میں ٹوٹے پھوٹے رکتے چلتے جمہوری عمل کا حاصل سول ادوار کی تقسیم دو خاندانوں میں مرتکز ہو کر رہ گئی ہے۔ شمالی کوریا میں حکومت کڑے کمیونزم میں ایک ہی (کمیونسٹ) پارٹی تو کیا ایک خاندان کی ہی ہو کر رہ گئی جس کا موجودہ 32سالہ سربراہ کم جونگ ان اپنے والد کم ال سنگ کے انتقال پر شمالی کوریا کا مکمل ڈکٹیٹر بن کر ’’مسلسل دفاعی تیاریوں‘‘ کی پالیسی پر اپنے باپ سے بھی زیادہ سخت پالیسی پر مکمل انہماک سے عمل پیرا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سوویت یونین کے کئی ریاستوں میں بکھر جانے کے بعد اگر عسکری اعتبار سے امریکہ اور اس کےزیر اثر اور اتحادیوں کے لئے اگر کوئی ملک مسلسل خطرہ چلا آ رہا ہے اور بڑھ رہا ہے تو وہ شمالی کوریا ہے جو ایک سے بڑھ کر ایک ایٹمی اسلحہ خصوصاً میزائل کے ذریعے وار ہیڈز کی ڈلیوری پر دسترس بھی مسلسل بڑھا رہا ہے اور اس کی میزائل کی پہنچ کا دائرہ بڑھنے کی بڑھانے کی خطرناک اور تباہ کن صلاحیت بھی بڑھتی جا رہی ہے جویقیناً پوری دنیا کے لئے خصوصاً امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئےخطرہ ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ سفارتی اور سیاسی ذرائع استعمال کرکے شمالی کوریا کی پرخطر ایک ہی پالیسی (مسلسل دفاع سے زیادہ عسکری صلاحیت میں اضافے) کے نتائج کو قابو کرنے میں ناکام ہو گیا۔ صدام کے عراق، قذافی کے لیبیا یا کابل کے طالبان سے واشنگٹن کو کبھی کوئی ایسا خطرہ نہ رہا جتنے بڑے محاذ کھول کر اس نے ان ممالک کو تباہ وبرباد کر دیا، لیکن چین کے مکمل تعاون اور سوویت ایمپائر کے خاتمے کے باوجود آج بھی واشنگٹن کو مظلوم شمالی کورین قوم کے 32 سالہ مرد آہن کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے میں مکمل ناکامی دنیا کے لئے بڑا خطرہ بن گئی ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ واشنگٹن نے جنوبی کوریا کو انگیج کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی، تقریباً ہر دور میں یہ کسی نہ کسی درجے پر ہوئی۔ 1970کی تو پوری دہائی میں چین اور سوویت یونین نے بھی شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لئے مسلسل سفارتی دبائو ڈالا ۔مسئلے دو بڑے ہیں ایک شمالی کوریائی قیادت کا مکمل مائنڈ سیٹ جو عملاً تباہ کن حملے کی مسلسل تیاریوں کے حوالے سے امریکہ اور مشرقی ایشیائی ممالک کے لئے بڑھتا خطرہ ہے جو اصل میں تو عالمی امن کے لئے مہیبخطرہ ہے، دوسرے اڑھائی کروڑ انسانوں پر مشتمل شمالی کوریائی مظلوم ترین قوم جن کا وطن ان کے لئے سخت گیر قیدخانہ بن کر رہ گیا ہے لیکن یہ صرف اب امریکہ یا مشرقی ایشیائی ملکوں کا ہی نہیں پوری عالمی برادری کا تکلیف دہ مسئلہ ہے، اس خطرے سے نمٹنے کے لئے واشنگٹن کو شمالی کوریا کو بڑھتے عالمی خطرات کے مطابق مینج کرنے کے لئے اتنا ہی فوکس کرنا پڑے گا جتنا خودشمالی کوریا نے مسلسل اپنی دفاعی ہی نہیں حملہ آوری کی صلاحیتیں بڑھانے پر کیا ہوا ہے اور جس کا خاتمہ بظاہر نظر نہیں آ رہا ۔اب صدر ٹرمپ کا اپنا ٹیمپرامینٹ شمالی کوریا کو بطور فلیش پوائنٹ اور زیادہ خطرناک نہ بنا دے۔ کہاں امریکی تھنک ٹینکس جن کا اپنا فوکس مشرق وسطیٰ ،مصر، شام اور افغانستان ، پاکستان اور عراق جیسے بےضرر ممالک پر ہو کر رہ گیا ہے۔

تازہ ترین