• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں نے مردم شماری کے نتائج مسترد کردیئے ہیں ان کے خیال میں سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ حکومت کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتیںیک زبان ہوگئی ہیں اور کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا گیا ہے جبکہ ایم کیو ایم پاکستان نے گیارہ ستمبر کو مزار قائد پر احتجاج کا اعلان بھی کردیا ہے۔ ان کے خیال میں نتائج کی وجہ سے عوام میں احساس محرومی پیدا ہورہا ہے۔ وطن عزیز میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اسرار و کوشش سے تقریباً بیس سال بعد چھٹی مردم شماری و خانہ شماری کی گئی۔ حیرانی کی بات ہے کہ وہی سیاسی جماعتیں جن کی کوشش سے مردم شماری ممکن ہوئی آج وہی جماعتیں مردم شماری کے نتائج سے مطمئن نہیں، ان کے خیال میں مردم شماری کے اعداد و شمار درست نہیں ہیں حالانکہ ان ہی سیاسی جماعتوں کے خدشات و عدم اطمینان دور کرنے اور خواہش کے مطابق ہی مردم شماری کے کام میں مدد و معاونت کے لئے ہی افواج پاکستان، رینجرز اور پولیس کو مشترکہ طور پر شامل کیا گیا تھا تاکہ ہر قسم کی بدعنوانی سے مردم شماری کو محفوظ کیا جاسکے۔ اب وہی لوگ ان قومی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔وفاقی حکومت نے تمام تر اختلافات اور رکاوٹوں کے باوجود سپریم کوٹ کے حکم پر وہ کر دیکھایا جو گزشتہ بیس برس میں سابقہ حکومتیں نہ کرسکی تھیں۔ اس سارے عمل پر حکومت کے تقریباً تیس ارب روپے کی کثیر رقم خرچ ہوئی اور سرکاری ادارے رات دن اس کار خیر میں مصروف رہے۔ اس کے باوجود مردم شماری کی فرمائش کرنے اور ضرورت کا احساس دلانے والی سیاسی جماعتیں ہی آج غیر مطمئن ہیں۔ وہ اپنے غیر مطمئن ہونے کا برملا اظہار کررہی ہیں لیکن کوئی مثبت تجویز نہیں دے رہیں، صرف اعتراض کرنے سے کبھی بھی مسائل حل نہیں ہوئے کسی بھی ادارے پر بد اعتمادی سے معاملات سلجھتے نہیں بلکہ مزید الجھ جاتے ہیں، ہاں اگر سیاسی جماعتیں اس بارے میں اپنی اپنی تجاویز دیں اور اعتراضات کے بجائے مشاورت کا طریقہ اپنائیں تو ممکن ہے کوئی بہتر طریقہ یا صورت نکل کر سامنے آسکے۔ یہ بات اپنی جگہ بہت مضبوط حیثیت رکھتی ہے کہ آنے والے انتخابات اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلقۂ انتخابات اسی مردم شماری کی روشنی میں مرتب کئے جائیں گے، اس لئے بھی سیاسی جماعتوں کو اس کی زیادہ فکر ہورہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سندھ کی دیہی و شہری آبادیوں میں اپنی اپنی سیٹوں کا تحفظ چاہتی ہیں، اس لئے ہی وہ پنجاب خصوصاً لاہور کے بارے میں ہونے والی مردم شماری پر اعتراض کررہی ہیں کیونکہ لاہور کے مضافات کو لاہور شہر میں شامل کردیا گیا ہے جبکہ کراچی کے مضافات کو الگ شناخت دی گئی ہے، یقیناً یہ کسی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے نتیجہ میں ہی ہوا ہے۔ حکمرانوں نے اپنے زیر اثر علاقوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے لئے محفوظ بنانے کی کوشش کی ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سندھ کےدیہی و شہری علاقوں کو زیادہ نشستیں دینے اور پہلے کے مقابلے میں نئی حلقہ بندیوں سے زائد نشستیں لینے کے لئے نئی حلقہ بندیاں کی جارہی ہوں تاکہ سندھ کو پہلے کے مقابلے میں قومی و صوبائی اسمبلی میں مزید نشستیں مل سکیں اور قومی اسمبلی میں سندھ کی نشستیں زیادہ ہو جس کا فائدہ انہیں سینیٹ میں بھی ملے گا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اپنے مورثی حلقوں میں ردو بدل سے انہیں متوقع نتائج نہ ملنے کا خدشہ پیدا ہورہا ہو جو وہ گزشتہ بیس سالوں سے حاصل کرتے رہے ہیں۔ سندھ کی باقی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ مردم شماری و خانہ شماری شفاف نہیں ہوئی مرکز نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئےہیں تاکہ مرکز میں حکمراں جماعت اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکے۔ جبکہ مرکز نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے اور مردم شماری کو شفاف قرار دیاہے کچھ ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ متنازع نتائج کی بنا پر عوام کے حقوق کا استحصال ہوگا۔ مردم شماری متنارع ہوئی تو صوبوں میں احساس محرومی بڑھے گا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مردم شماری پر اعتراض کرکے سیاسی جماعتیں دراصل الیکشن کو ٹالنا چاہتی ہیں ان کے خیال میں اگر الیکشن وقت پر کرادیں گے تو صورت حال تبدیل ہوجائے گی اور موجودہ نشستوں کا تناسب حاصل نہیں ہوسکے گا اس لئے خوف زدہ ہورہی ہیں۔ حالانکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق اس بار نئے حلقوں کی تشکیل کے باعث ہر صوبے میں قومی ور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو نئے حلقے بنانے کے لئے بھی آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ مردم شماری کے ادارے کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ بلوچستان کے سوا باقی ہر صوبے میں خصوصی رابطہ کمیٹیاں بنائی گئی تھیں جو مردم شماری و خانہ شماری کے عمل کا مشاہدہ و نگرانی کررہی تھیں تاکہ مردم شماری کے عمل کو شفاف بنایا جاسکے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نہ قیاس پر نہ اندازوں پر کام کرتے ہیں جو اعداد و شمار ملتے ہیں وہی ہم منظر عام پر لاتے ہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ابھی تو صرف عبوری نتائج سامنے آئے ہیں تفصیلی نتائج آنے میں سات سے آٹھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب میں لاہور کے اضلاع کولاہور میں شامل کرنے سے پنجاب میں موجودہ نشستوں کے مقابلے میں کم نشستیں حاصل ہوں گی کیونکہ لاہور کے دیہی علاقوں کو لاہور شہر میں شامل کردینے سے دیہی نشستیں کم ہوجائیں گی۔ لیکن یہ بات سندھ کی سیاسی جماعتوں کی سمجھ میں نہیں آرہی، ایم کیو ایم کا ہی نہیں یہ مطالبہ سندھ کی دیگر سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے کہ مردم شماری سمیت تمام دیگر مسائل کے حل کے لئے اب متحرک طریقہ اپنانا ہوگا، حکمراں وسائل کی غلط تقسیم اور نئی حلقہ بندیوں کے ذریعے مخالفین کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں اسی باعث مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو کم دکھایا جارہا ہے اس سلسلے میں سندھ کی تمام پارٹیاں یک زبان ہوکر میدان میں آنے کو تیار ہیں۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کیونکہ مردم شماری کے اعداد و شمار توقعات کے خلاف کم آئے ہیں جو یقیناً صاف و شفاف ہونے کی علامت ہےاگر حسب سابق حسب دھاندلی والے طریقوں سے مردم شماری ہوتی تو ہر جماعت اپنی مرضی و منشاکا اضافہ اپنے اپنے حلقوں میں اور اپنے مخالفین کے حلقوں میں اپنے حامیوں کا اضافہ کرالیتی تو پھر یقیناً مردم شماری کے نتائج پر اس طرح کے شدید اعتراضات نہ ہوتے کیونکہ سب کو اپنے غلط کاموں کا پتا ہوتا اب جبکہ فوج، رینجرز اور پولیس کی نگرانی میں تمام کاروائی کی گئی ہے اس لئےنتائج حقیقی اور شفاف آنے کی وجہ سے تمام جماعتوں میں احسامی محرومی جاگ اٹھا ہے وہ سب اپنی اپنی بولی بول رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی سوچ سے اندازہ ہوتا ہے ان کے خیال میں چت بھی میری اور پٹ بھی میری، وہ ہر طرح اور ہر طریقے سے ہر حال حال میں جیتنا ہی چاہتی ہیں، چاہے جو بھی ہو ان کی مرضی و منشا کے مطابق ہو۔

تازہ ترین