• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا مسئلہ یہ نہیں کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف، محترمہ کلثوم نواز کی عیادت کےلئے ’’لندن یاترا‘‘ پرگئے ہیں یا اپنے میڈیکل چیک اپ کے لئے۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ پاکستان کے سیاسی اتار چڑھائو میں ہمیشہ سے سیاست دانوں کی’’لندن یاترا‘‘ کا بہت عمل دخل رہا ہے۔ دھرنے کے دنوں میں ’’لندن سازش‘‘ کا بہت شور و غوغا سنائی دیا تھا۔ اکثر اوقات سیاسی رہنما لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ شاید اِس وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتحال درپیش ہے۔ خاص طور پر نون لیگ کے سیاسی مستقبل کے معاملات طے کرنے کیلئے تو لندن سے بہتر مقام اور کوئی ہے ہی نہیں۔ امکان یہی ہے کہ دونوں بھائی اور محترمہ کلثوم نواز مل بیٹھ کر حمزہ شہباز اور مریم نواز کے بیچ میں ہونے والی کھینچاتانی کا کوئی حل ڈھونڈنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ تھوڑا سا اس کھینچا تانی کا پس منظر بیان کرنا بھی ضروری ہے۔
بہت عرصہ پہلے نواز شریف نے کہا تھا کہ میرا سیاسی جانشین حمزہ شہباز ہوگا مگر پھر اس میں تبدیلی آگئی اور سیاسی جانشین مریم نواز کو بنا دیا گیا۔ دونوں خاندانوں میں کھل کر اختلافات پہلی بار سامنے آئے۔ عمران خان کے دھرنے کے دنوں میں جب نوازشریف نے اپنے برادر شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ وزیراعلیٰ شپ سے مستعفی ہوجائیں تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حمزہ شہباز دیوار بن گیا۔ اُس نےکہا کہ ابو کسی صورت مستعفی نہیں ہوں گے۔ اگر دونوں بھائیوں میں سے کسی ایک کا مستعفی ہونا ضروری ہے تو انکل خود وزارتِ عظمی سے دستبردار ہوجائیں ۔
اب جب سے پانامہ کیس کا فیصلہ آیا ہے تو ایک عمومی رائے یہی تھی شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا جائے گا اور پارلیمانی اجلاس میں بھی یہی کہا گیا کہ نواز شریف کے بعد شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے۔ پارٹی نے اس فیصلے کی توثیق کر دی۔ اجلاس میں صرف ایک ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی نے اختلاف کیا تھا اور یہی طے پایا تھا کہ پینتالیس دنوں کے لئے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہوں گے اور اس کے بعد ’’ہما‘‘ شہباز شریف کے کاندھے پر براجماں ہوگا مگر اچانک یہ فیصلہ بھی تبدیل کر دیا گیا۔ حلقہ 120میں شہباز شریف کی جگہ پر بیمار ہونے کےباوجود محترمہ کلثوم نواز نون لیگ کی امیدوار کے طور پرسامنے آگئیں۔ شاید شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو پہلے سے ہی اس بات کا اندازہ تھا کہ شاہد خاقان عباسی کو صرف پینتالیس دنوں کے لئے وزیراعظم نہیں بنایا جارہا۔ ہمیں صرف بہلایا جا رہا ہے۔ اندرون خانہ معاملہ کچھ اور ہے۔ کہا جاتا تھا کہ اُس روز حمزہ شہباز اسلام آباد میں موجود تھا مگر اُس نے پسند نہیں کیا کہ وہ شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دینے کے لئے اسمبلی کی عمارت میں داخل ہو۔ خود شہباز شریف بھی مری میں تھے مگر انہوں نے بھی شاہد خاقان عباسی کی بحیثیت وزیراعظم تقریبِ حلف ِ وفاداری میں شرکت مناسب نہیں سمجھی۔
پھر نون لیگ کی صدارت کا مرحلہ آ گیا۔ الیکشن کمیشن نے کہہ دیا کہ نواز شریف پارٹی کے صدر نہیں رہے۔ پارٹی کی سینئر ترین قیادت کی میٹنگ ہوئی اور اُس میں بھی یہی طے پایا کہ نواز شریف کے بعد شہباز شریف ہی پارٹی کے صدر ہوں گے۔ مگر نون لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں قائم مقام صدر سردار یعقوب ناصر کو بنا دیا گیا اور کہا کہ کچھ عرصہ بعد پارٹی انتخابات کی وساطت سے شہباز شریف کو پارٹی کا صدر بنایا جائے گا۔ اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ فوری طور پر شہباز شریف کو صدر بنانے میں کیا قباحت تھی۔ کیا کوئی قانونی رکاوٹ تھی؟ آخر کیوں ان کو قائم مقام صدر نہیں بنایا جا سکتا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ حلقہ 120میں انتخابی مہم کا انچارج حمزہ شہباز کو بنا دیا گیا۔ حمزہ شہباز نے کام شروع کیا مگر اچانک ایک دن خبر آئی کہ نوازشریف نے این اے 120کے ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم سے حمزہ شہباز کو علیحدہ کردیا ہے۔
وزیر تجارت پرویز ملک کو کلثوم نواز کی انتخابی مہم کا انچارج بنا دیا گیا۔ اخباری بیانات میں اس بات کی کئی توجیہیں بھی دی گئیں مگر صاف طور پر محسوس کیا گیا کہ اندرون خانہ بات کوئی اور ہے۔ پھر پرویز ملک بھی کہیں پس منظر میں چلے گئے اور مریم نواز انتخابی مہم کی انچارج بن کر سامنے آگئیں۔ جس روز سابق وزیراعظم اسلام آباد سے اپنے جلوس کے ساتھ لاہور آئے تھے اور لاہور میں ان کا بھرپور استقبال کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اُس استقبال کے لئے بھی حمزہ شہباز کہیں سرگرم نہیں دکھائی دیئے بلکہ جب وزیراعلیٰ شہباز شریف اُس آخری جلسے میں تشریف لے گئے تو انہوں نے باقاعدہ کہا کہ ’’میں تقریر نہیں کروں گا‘‘ اِس کے باوجود انہیں تقریر کے لئے بلا لیا گیا۔ وہ نوازشریف کے پہلو میں بیٹھ کر انکار کے لئے ہاتھ ہلاتے رہے ۔ویڈیو کوریج میں یہ منظر واضح طور پر نظر آتا رہا اور پھر وہاں مجبوراً وزیر اعلیٰ پنجاب کو تقریر کرنا پڑی۔
اطلاعات کے مطابق چند ہفتے پہلے شریف فیملی میں اختلافات کے خاتمے کے لئے نواز شریف کی والدہ نے بڑی بھرپور کوشش کی۔ مری میں تین دن تک نواز شریف اور شہبازشریف کے بچوں میں صلح کی کاوشیں جاری رہیں۔ خاص طور پر مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان۔ جسے کسی حد تک کامیاب بھی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ شریف خاندان میں اختلافات کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے حقیقت میں کچھ ایسا نہیں ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ ’’شریف خاندان میں اختلافات کی توقع رکھنے والے خاک چاٹیں گے‘‘
حمزہ شہباز اور مریم نواز کے درمیان اختلاف اس وقت سے واضح ہونا شروع ہوگئے تھے جب حلقہ 120کے ضمنی انتخابات میں ایاز صادق کامیاب ہو گئے تھے مگر محترمہ کلثوم نواز کا بھانجا محسن لطیف پی پی 147پر تحریک انصاف کے امیدوار سے شکست کھا گیا تھا۔ اس انتخابی مہم کا انچارج حمزہ شہباز تھا اس وقت بھی بین السطور نون لیگ کے کچھ لوگوں نےمحسن لطیف کی شکست کا ذمہ دار حمزہ شہباز کو ہی ٹھہرایا تھا۔ کہتے ہیں اِسی وجہ سے محسن لطیف نے نون لیگ کے یوتھ ونگ کی صدارت سے استعفیٰ بھی دیا تھا۔ کچھ احباب کا خیال ہے کہ حمزہ شہباز اور مریم نواز میں کھینچا تانی ختم ہونے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ نون لیگ کی قیادت مکمل طور پر شہباز شریف کے سپرد کر دی جائے اور شریف فیملی اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی ختم کرکے کسی نئے این آر او تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے وگرنہ نواز شریف کی فیملی کے ساتھ شہبازشریف کی فیملی بھی سیاست میں قصہ پارینہ بن جائے گی اور حمزہ شہباز کو اس بات کا پوری طرح احساس ہے۔

تازہ ترین