• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کا کالم برصغیر پاک و ہند ہی کا ماضی میں حصہ رہنے والے ملک برما میں بسنے والی دنیا کی مظلوم ترین روہنگیا کمیونٹی کے مسائل کااحاطہ کرتا ہے جنہیں اپنے ہی وطن میں شہریت سے محروم کرکے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، پاکستان میں بہت کم افراد کو علم ہوگا کہ برما میں حالیہ مظالم کا شکار روہنگیا کمیونٹی میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل ہیں ۔ برما سے موصول ہونے والی دِل دہلادینے والی اطلاعات نے مجھ سمیت انسانیت کا درد رکھنے والے حساس انسانوں کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے،دیگر سماجی تنظیموں کی طرح پاکستان ہندوکونسل کے زیراہتمام بھی برما کے روہنگیاؤں کے حق میں مظاہرے کیے جارہے ہیں لیکن کسی بھی درپیش مسئلے کے دیرپا حل کیلئے ضروری ہے کہ تمام عوامل کاتاریخی تناظر میں نہایت ذمہ داری سے جائزہ لیا جائے۔برما کی مسلمان اکثریتی ریاست ’’اراکان‘‘ جسے سرکاری طور پر راکھین کا نام دے دیا گیا ہے جغرافیائی طور پر خلیجِ بنگال میں موجودہ بنگلہ دیش کے علاقے چٹاگانگ سے ملحقہ ہے۔ روہنگیا ؤں کا علاقہ اراکان ماضی میں قدیم ہندو بادشاہتوں کے زیرنگیں بھی رہا ہے ،ہندو شاہی خاندان چندرکے دورِحکومت میں تجارتی شہر وائیتھالی آباد کیا گیا جو مذہبی ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال سمجھا جاتا تھا ،ہندو بادشاہت ویشالی میں اراکان کو چٹاگانگ ہی کی ایک توسیع سمجھا جاتا تھا، تاریخ میں اراکان کے مسلمانوں کی اپنی خودمختار حکومتوں کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ جنگِ آزادی 1857ء کے بعدانگریزوں نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو برما ہی میں جلاوطن کیا تھا اوروہیں ان کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔ برما کے برصغیر کا حصہ ہونے کے باعث خطے کے باشندوں کی ایک دوسرے پر مذہبی، ثقافتی، سیاسی، لسانی اثرات مرتب کرنے کی طویل تاریخ ہے لیکن مقامی برمی اکثریت روہنگیا کمیونٹی کو بنگالی تارکین وطن قرار دیتی ہے، انگریزوں اور برمی سلطنت کے مابین پہلی جنگ 1826ء کے اختتام پر انگریزوں کا تسلط مسلمان اکثریتی علاقے اراکان سمیت آسام، منی پور اورکاچھار وغیرہ میں قائم ہوگیاتھاجبکہ برما کے خلاف تیسری فیصلہ کْن جنگ 1886ء کے نتیجے میں انگریزوں نے ملک کے باقی ماندہ علاقوں پر قبضہ جماکر ہندوستان کا حصہ بنادیا،برمی قوم پرستوں کی نظر میں حملہ آور ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں کی کثیر تعدادبنگال کے باشندوں پر مشتمل تھی جنہوں نے اراکان کے پہاڑوں پر سے برما پر حملہ کیا۔ جب برصغیر میں تحریکِ آزادی زوروں پر تھی توانگریزوں نے 1938ء میں برما کو ہندوستان سے الگ کردیا، اراکان کے پہاڑ روہنگیا مسلمانوں کے علاقے اور برما کے درمیان قدرتی سرحد کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن بنگال سے قریب ترین اراکان علاقے کوغیرفطری طور پر برما کا حصہ بنا دیا گیا۔ روہنگیا مسلمانوں کی طرف سے اراکان علاقے کی پاکستان میں شمولیت کی تحریک چلانے کیلئے شمالی اراکان مسلم لیگ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا لیکن برما کے علیحدہ ملک کا حصہ بن جانے کی وجہ سے اراکان کے مشرقی پاکستان کا حصہ بننے کے مطالبے کو پذیرائی نہ مل سکی۔بعد ازاں،برطانیہ سے آزادی کے بعد برما میں 1962ء میں فوجی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی روہنگیا کمیونٹی کو باغی قرار دیکر قتلِ عام شروع کردیا جسکے نتیجے میں روہنگیا ؤں کی کثیر تعداد بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبورہوگئی۔برمی حکومت نے 1982ء کے متنازع قانونِ شہریت کے تحت روہنگیا کمیونٹی کی شہریت بہ یک قلم جنبش منسوخ کرکے سب سے بڑا ظلم ڈھایا کہ اب وہ شناختی دستاویزات کی عدم دستیابی کی بنا پر اپنے وطن برما میں تو اپنے بنیادی حقوق سے محروم کر ہی دیئے گئے لیکن کسی دوسرے ملک کا دروازہ کھٹکھٹانے کے قابل بھی نہیں رہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ میرے خیال میں مذہب کے نام پر نفرت انگیز اقدامات کے خاتمے کیلئے تمام مذاہب کے لیڈران کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ، اس سلسلے میں عیسائی مذہب کے سب سے بڑے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو خراج تحسین پیش نہ کرناسخت نا انصافی ہوگی جنہوں نے روہنگیا کمیونٹی کے حق میں بیان دیکر ثابت کردیا کہ مظلوم کی مدد کرنا ہر انسان پر فرض ہے ، دوسری طرف ترکی نے بنگلہ دیش سے روہنگیا مسلمانوں کیلئے سرحد کھولنے کے جواب میں مالی امداد کی پیشکش کرکے دنیا بھر کے امن پسندوں کے دِل جیت لیے ہیں، پاکستان ہندو کونسل کو دستیاب معلومات کے مطابق حالیہ کشیدگی میں پانچ سو روہنگیا ہندوؤں نے بھی بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ روہنگیا مسئلے کا دیرپا حل ہمسایہ ممالک کا سرحدیں کھولنا نہیں ہے، بنگلہ دیش کو سرحد بند کرنے کے حوالے سے سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن کمزور معیشت کا حامل بنگلہ دیش روہنگیاؤں کو پناہ دینے والا سب سے بڑا ملک ہے، شام کے تارکین وطن کے المناک حالات گواہ ہیں کہ موجودہ صورتحال میں مہاجرین جب بھی کسی دوسرے ہمسایہ ملک کا رخ کرتے ہیں تووہاں کی مقامی آبادی کے تعصب کا نشانہ اور معیشت پر بوجھ قرار پاتے ہیں ،مضبوط معیشت کے مغربی ممالک جرمنی اور کینیڈا نے مہاجرین پر اپنے دروازے تو کھولے لیکن تاحال شامی مہاجرین وہاں کے معاشرے کا فعال حصہ بننے میں ناکام ہیں، اسی طرح پاکستان آج بھی افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ ترکی اقتصادی لحاظ سے مستحکم ضرورہے لیکن پاکستان کا عالمی برادری بالخصوص مسلمان دنیا میں اپنا ایک قائدانہ منفرد کردار ہے، بدھ مت کا مرکز تاریخی شہر ٹیکسلا میں واقع ہونے کی بناپر پاکستان کی جانب سے مضبوط پیغام روہنگیا کمیونٹی پر مظالم ڈھائے جانے والوں کے پاس جانا چاہیے کہ گوتم بدھا کی اصل تعلیمات تمام انسانوں سے محبت ہے۔پاکستان میں مختلف طبقات کی جانب سے برما کے ساتھ سفارتی تعلقات کی معطلی اور برمی سفیر کی ملک بدری کے مطالبات کیے جارہے ہیں، میری نظر میں چین کا برما پر بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے اور ایسے شدت پسندانہ اقدامات سے روہنگیا مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا بلکہ خطے میں ہمارا واحد دوست ملک چین بھی ہم سے ناراض ہوسکتا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ صرف مذمتی بیانات اور احتجاجی سیاست سے یہ سنگین مسئلہ حل نہیں ہوسکتا بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم چین کو اعتماد میں لیتے ہوئے مختلف ممالک کے امن پسند پارلیمانی نمائندوں ، صحافیوں اور سول سوسائٹی کا ایک عالمی وفد تشکیل دیکر برما کے متاثرہ اراکان علاقے کا دورہ کریں اور دونوں فریقین کو سمجھائیں کہ قتل و غارت کسی مسئلے کا حل نہیں اور دنیا کا ہر مذہب تمام انسانوں کو جینے کا حق دیتا ہے، میں نے 2004ء میں بھی برما کا دورہ کیا تھا اور آج بھی خطے میں مذہبی ہم آہنگی اور برداشت رواداری کو فروغ دینے کیلئے ایسے امن وفد کا ہراول دستہ بننا خدمتِ انسانیت سمجھتا ہوں۔پاکستان کو دنیا بھر میں اپنے سفراء کرام کو متحرک کرتے ہوئے عالمی برادری کو قائل کرنا چاہیے کہ وہ انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پر برماحکومت کو سمجھائیں کہ روہنگیاکمیونٹی کا بھی برما پر ایسا ہی مساوی حق ہے جیسے برما کی دیگر آبادی کااوراراکان میں صدیوں سے بسنے والے روہنگیاؤں کے مسئلے کا حل اراکان علاقے ہی میں انہیں شہری حقوق کی فراہمی یقینی بناکرتلاش کیا جانا چاہیے، اگر پاکستان ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو میری نظر میں یہ روہنگیا کمیونٹی کی سب سے بڑی مدد ہوگی ۔ ان تمام سنجیدہ کاوشوں کے باوجوداگر برما 1982ء کے قانونِ شہریت پر نظرثانی کرنے میں ناکام رہا تو آخری پُرامن حل اقوام متحدہ کے تحت مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرز پراراکان میں روہنگیا ؤں کی آزاد خودمختار مملکت قائم کرنا ہی ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین