• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دن جو بینظیر قتل کیس کا فیصلہ آیا بے شمار لوگوں کو ایسا لگا کہ وہ پھر قتل ہو گئی۔ قتل اور قتل کی واردات دھونے کا حکم دینے اور منصوبہ ساز نا معلوم اور آزاد اور قتل کرنے والے بھی آزاد بس سہولت کار سزا یاب۔
بینظیر بھٹو کی سوانح عمری لکھنے والی روسی محققہ اور مصنفہ اینا سو اپنی کتاب ’’بینظیر بھٹو:کثیرالجہت تصویر‘‘ میں لکھتی ہے ’’ویسے تو پاکستان کی گلی گلی میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر ڈھیر جمع ہوتے رہتے ہیں ان کو حکومت اٹھوانے کی کبھی توفیق نہیں کرتی لیکن یہاں صفائی کی ایسی کیا جلدی پڑ گئی تھی کہ قتل کی جائے واردات گھنٹوں میں دھو ڈالی گئی؟’’ بینظیر کی اس سوانح نگار نے بینظیر کے قتل کی تفتیش کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ ’’دو ہزار گیارہ میں مشرف کو کیس میں شریک ملزم بنایا گیا کیونکہ تفتیش میں نئی گواہی سامنے آئی کہ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کے قتل سے محض چند گھنٹے پہلے اسکے (بینظیر کے) گارڈ تبدیل کروا لیے تھے اور قتل کے فوری بعد جائے واردات دھونے پر اہلکاروں کو مجبور کیا تھا۔‘‘ مرتضیٰ بھٹو کے بھی قتل کی جائے واردات گھنٹوں میں مٹا دی گئی تھی۔
لیکن یہ تو کسی بھی عام فوجداری کے وکیل کیا وکیل کے منشی اور عام موکل کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب قتل جیسے ناقابل سمجھوتہ مقدموں میں کسی طرح مک مکا ہو جاتا ہے تو پھر مقتول کے لواحقین کیس کی پیروی کرنا بھول جاتے ہیں اور نہ ہی پیشیوں پر زیادہ دیکھے جاتے ہیں ۔ مقتولہ بینظیر بھٹو کے کیس میں بھی اسکے لواحقین نے ایسا ہی رویہ اختیار کیے رکھا۔ کیا انہوں نے بڑی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا جسے پروین شاکر کو اپنی شاعری میں بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا کہ اس نے کچھ شاید یوں کہا تھا:
دیکھ کر قاتل کے بچے درگزر کرتا قصاص
مقتول کے پیاروں میں اتنا ظرف لیکن تھا کہاں
زرداری اس دن اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ رہا تھا کہ ججوں کے بھی بچے ہیں۔ اور اس کا بھی وہی موقف تھا جو بینظیر کے قتل کے اڑتالیس گھنٹوں کے بعد اوسان خطا مشرف حکومت کا تھا کہ بینظیر کی موت اس کی بلٹ اور بم پروف گاڑی کے سن روف کھولنے والے لیور لگنے سے ہوئی۔
زرداری نے برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: میں اسکے قتل کا بدلہ لینے کیلئے نو لوگوں کو لٹکتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ پورا نظام ہے۔ اس کا بدلہ تب ہی لیا جا سکتا ہے جب ہم سنگاپور جتنے خوشحال ہو جائیں۔’’اینا سووورووا نے کرسٹینا لیمب کو زرداری کے اس انٹرویو کے حوالے پر اپنے تبصرے میں کہا: "اس طرح تو پھر بندے کو سچ اور انصاف تک پہنچنے میں کئی برس گزر جائیں گے۔ یعنی کہ
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک‘‘
’’راولپنڈی والا جلسہ اوران دن والی روداد زرد اری اور بچوں نے ٹی وی پر دیکھی ۔ جب بینظیر کی موت کی سرکاری طور تصدیق ہو گئی تو زرداری نے طیارہ آرڈر کیا اور بچوں کو لیکر وطن پہنچ گئے،‘‘بینظیر کی روسی سوانح نگار نے لکھا ہےکہ کارکن بینظیر کی میت براستہ روڈ لے جانا چاہتے تھے لیکن حکام نے خونریزی کے خدشے کےسبب اسکی اجازت نہیں دی۔ پھر میت بذریعہ طیارہ موہن جو دڑو ایئر پورٹ اور پھر ہیلی کاپٹر کے ذریعے نوڈیرو لائی گئی۔
اینا سووورووا کے مطابق میت کا پوسٹ مارٹم یا آٹپسی نہ کروانا اور قتل کی جائے واردات کو دھو ڈالنا ہی بینظیر کے قتل کی تحقیقات میں کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کو کافی تھے۔ لیکن زرداری اس دن اپنے مشہور شو میں کہے رہے تھے کہ رسوم کے مطابق انہوں نےلاش کی بےحرمتی کے خیال سے ایسا نہ کرنے دیا۔
راقم الحروف کو بھٹو خاندان کے ایک قریبی نے بتایا تھا کہ بینظیر بھٹو کی رشتے کی ایک کزن جو اسکی میت کو غسل دینے والی خواتین میں شامل تھی ’’پراسرار حالات‘‘ میں سپرہائی وے پراس جیپ کے حادثے میں موت کا شکار ہو گئی جو اسے بینظیر نے تحفے میں دی تھی۔یہ وہ پیجارو جیپ تھی جو بینظیر کی چھیاسی میں لندن سے جلاوطنی سے واپسی پر اسکے طوفانی دوروں میں استعمال ہوتی تھی اور پھر بینظیر نے یہ جیپ اپنی اس رشتے کی کزن کو دی تھی۔‘‘ خالد شہنشاہ اور بینظیر قتل کیس کا پراسیکیوٹر بھی قتل ہوئے۔ خالد شہنشاہ کو کہتے ہیں کہ رحمان ڈکیت نے قتل کیا۔ رحمان ڈکیت کو جعلی مقابلے میں بیک وقت بدنام زمانہ اور مشہور پولیس ایس ایس پی چوہدری اسلم اور چوہدری اسلم کو؟ روز اس کے قاتل پکڑے جاتے ہیں اور بدلے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی کمیشن رپورٹ جس کی تحقیقات پر پاکستانی قومی خزانے کے پچاس لاکھ امریکی ڈالر خرچ ہوئے نے کہا کہ پولیس نے تحقیقات کو تباہ کر ڈالا۔ لیکن یہ تو سندھ اور پنجاب کی دور دراز کی پولیس چوکی کے انچارج کو بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قتل کے مقدمے کیسے خراب کیے جاتے ہیں لیکن کسی اوپر والے یا طاقت والے کےحکم کے بغیر ایسا نہیں ہوتا۔ تو جھنگ کے نوابوں کے خانوادے کے ڈی آئی جی کو جس نے بھی پاکستان کے اس سب سے بڑے ہائی پروفائل کیس کا ستیاناس کرنے کا اوپر سے کہا ہو گا ۔ اس ملک میں اب یہ ضرب المثل بن گئی ہے کہ سیاسی قتل میں لیاقت علی خان سے لیکر بینظیر بھٹو تک انصاف کس مقدمے میں ہوا ہے؟ سوائے دو ہزار گیارہ میں مشرف پر قاتلانہ حملے کے کیس کے۔ جس میں تفتیشی افسر جنرل اشفاق پرویز کیانی نے قلیل مدت میں ملزمان کو پکڑ کر ملٹری کورٹ میں مقدمات چلو آکر پھانسی کی سزائیں دلوائیں اور پھر خود بھی ترقی پاکر چیف آف آرمی اسٹاف بن گئے۔
پھر زرداری سے لیکر مشرف تک اس پر لکھنے والوں تک سب بس یہی کہتے ہیں کہ اسے تو اپنی موت کی خبر تھی۔ سب منع کرتے رہے لیکن وہ نہ ماننے والی تھی۔ وہ موت سے ڈرنے والی نہیں کھیلنے والی تھی۔ یعنی کہ موت کی یہ شہزادی کوئی موت کے منہ میں بیٹھ کر راکٹ چلانے والی۔ اگر وہ اس طرح نہ ہوتی تو شاید زندہ ہوتی۔ تو سنو اس ملک کے مقدر سے گالف کھیلنے والوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کسی بھٹو کو نہیں زندہ چھوڑنا سوائے (ممتاز بھٹو کے) ْ بینظیر نے بینظیر کو خود قتل کیا۔ جدید زمانوں کی جدید سیاست سمجھنے والی کو ایک ولی اور پیر میں کیسے تبدیل کیا جائے یہ کوریوگرافروں نے خوب کیا۔

تازہ ترین