• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میانمار ماضی میں تاج برطانیہ کے زیر اثر رہا ہے۔ اس کی سرحدیں بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں۔ اس ریاست کا قدیم نام برما مشہور تھا۔ طویل عرصے سے فوجی حکمرانی کی وجہ سے ریاست پر فورسز کا کنٹرول ہے۔ 4جنوری 1948 کو برطانوی اثر سے آزاد ہوا تھا۔ قانون کی حکمرانی اور موثر عدالتی نظام کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ تیل کے کنویں ہونے کی وجہ سے ریاست کا ذریعہ معاش تیل کی فروخت ہے۔ نہرو اپنی کتاب Glimpses of World Historyمیں لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے 1826سے1886کے درمیان میں اس علاقے پر قبضہ کیا تھا مگر 1935کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت برما کو بھارت سے علیحدہ کردیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برما پر جاپان کا بھی قبضہ رہا۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت بدھ مت جبکہ عیسائی اور مسلمانوں کی بھی محدود تعداد موجود ہے۔ اطلاعات ہیں کہ مسلمان اقلیت میں ہیں۔ اس لئے ان پر میانمار میں ظلم کیا جاتا ہے۔ عالمی برادری سمیت بین الاقوامی جریدے میانمار کی حکومت کو اس ظلم کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جمہوریت کی بقا کی جدوجہد کرنے والی سوچی کے دور اقتدار میں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مگر کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ میانمار میں آج بھی فوجی تسلط قائم ہے اور سوچی جیسی مقبول رہنما بھی فوج کے اقدامات کے خلاف کھڑی نہیں ہوسکتی اور اس سارے تشدد کے پیچھے فوج کا کردار ہے۔
میانمار میں سان سوچی کی مسلسل جدوجہد کے بعد 25سال بعد انتخابات ہوئے تھے۔ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی کو انتخابات میں بھاری اکثریت ملی تھی تاہم آئینی رکاوٹ کی وجہ سے وہ الیکشن جیتنے کے بعد بھی صدر نہیں بن پائی تھیں۔ مگر میانمار کی اصل کمان سوچی کے ہاتھوں میں ہی ہے۔ سوچی پر تنقید اس لئے کی جارہی ہے کہ سوچی کے باپ جنرل آنگ سان نے برما کی آزادی کیلئے بھرپور جدوجہد کی تھی اور پھر ان کی بیٹی سان سوچی نے جمہوریت کے قیام اور برماکی آزادی کے لئے علم بغاوت بلند کیا..... اپنے شوہر اور اولاد کے لندن میں قیام پذیر ہونے کے باوجود تنہا جدوجہد کی۔ اسی جدوجہد پر انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا مگر آج اسی خاتون کے اقتدار میں فوج کے ہاتھوں معصوم مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ سوچی پر تنقید کی جارہی ہے کہ انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کے باوجود وہ خاموش کیوں ہے جس فوج کے خلاف جدوجہد پر اسے نوبل انعام ملا ہے، آج وہ اسی فوج کے ہاتھوں معصوم مسلمانوں کا قتل عام کیسے برداشت کررہی ہے؟ رخائن میں صحافیوں کے جانے پر مکمل پابندی کیوں عائد کر رکھی ہے؟ مگر آنگ سان سوچی کا دفاع کرنے والوں کا موقف ہے کہ بے شک آنگ سان سوچی اپنے ملک کی حقیقی لیڈر ہے مگر ملک کی سلامتی آرمڈ فورسز کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر سوچی بین الاقوامی دباؤ میں جھکتی ہیں اور ریاست رخائن کو لے کر کوئی قابل اعتماد انکوائری کراتی ہیں تو انہیں آرمی سے تصادم کا خطرہ اٹھانا پڑ سکتا ہے اور ان کی حکومت خطرے میں آ سکتی ہے۔ فوج کے دباؤ میں ہی سوچی رخائن اسٹیٹ میں ہونے والے ہر اقدام کو ’’رول آف لا‘‘ قرار دے رہی ہیں مگر پوری دنیا چیخ رہی ہے کہ روہنگیا مسلمان ایسی اقلیتی برادری ہیں جس پر سب سے زیادہ ظلم ہو رہا ہے۔ میانمار میں ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ روہنگیا مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غیرقانونی بنگلہ دیشی مہاجر ہیں۔ حکومت نے انھیں شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے تاہم یہ میانمار میں نسلوں سے رہ رہے ہیں۔ ریاست رخائن میں 2012 سے فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے۔ اس تشدد میں بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان آج بھی خستہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ انہیں وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بغیر دستاویزات والے روہنگیا بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں جو دہائیوں پہلے میانمار چھوڑ کر وہاں آئے تھے۔ رخائن ریاست میں اس سب کا آغاز پولیس افسران پر حملے کے بعد شروع ہوا تھا۔ موگڈوو سرحد پر نو پولیس افسران کے مارے جانے کے بعد گزشتہ ماہ ریاست رخائن میں سیکورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔ میانمار کے فوجی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ روہنگیا کمیونٹی کے مسلمانوں نے کیا تھا۔ اس کے بعد سیکورٹی فورسز نے موگڈوو ضلع کی سرحد کو مکمل طور پر بند کر دیا اور ایک وسیع آپریشن شروع کر دیا۔ فوجیوں نے اس آپریشن میں روہنگیا مسلمانوں پر ہیلی کاپٹر بھی استعمال کئے ہیں۔ تب سے لے کر پانچ سال ہوچکے ہیں، یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس سارے معاملے میں میانمار کے شدت پسند رہنما اشین وارتھ کا اہم کردار رہا ہے۔ وارتھ کو اس کی شدت پسندانہ تقریروں کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور اس پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اپنی تقریروں سے مسلم اقلیتوں کے خلاف ماحول تیار کرتا ہے۔2012 میں جب رخائن صوبے میں روہنگیا مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان تشدد کی آگ بھڑکی تو اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے وراتھ نسل پرستوں کا پسندیدہ بن گیا۔ بین الاقوامی جریدے کے مطابق جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ میانمار کا ’’بن لادن‘‘ ہے،تو اس نے کہا کہ وہ اس سے انکار نہیں کرےگا۔ آج برما (میانمار) میں یہ عالم ہے کہ جان بچانے کی خاطر لگ بھگ گیارہ لاکھ روہنگیا مسلمان جنگلوں، صحراؤں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ پچیس ہزار کے قریب روہنگیا بحیرہ ہند کے کھلے سمندر میں کشتیوں میں ہچکولے کھا رہے ہیں۔ جن کے پاس بنیادی اشیائے ضروریہ کا کوئی بندوبست نہیں اور نہ ہی انھیں دنیا کا کوئی ملک قبول کرنے کو تیار ہے۔
افسوس ہوتا ہے کہ آج برما میں بدھ مت کے ماننے والوں کی حکومت ہے جن کی تعلیمات میں یہ بات واضح طور پر عیاں ہے کہ انسان تو انسان کسی جاندار کو بھی تکلیف دینا اور مار دینا کسی بھی طرح جائز نہیں تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پھر مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیوں اور کیسے کیا جا رہا ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے کا تو جم جائے گا

تازہ ترین