• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف تو یہ شکایت بہت عام ہے، اور درست ہے کہ ملک میں کتا بیں پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے۔ دوسری طرف یہ عالم ہے کہ سرکار کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے بھی کتابوں کی قیمت بڑھارہے ہیں، اور اگر یہ کہا جائے کہ بعض صورتوں میں حد سے زیادہ، تو کوئی غلط بات نہیں ہوگی۔
میرے ساتھ تو یہ ہوتا آیا ہے کہ بقول منیر نیازی ؎
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں ہر کام کرنے میں
اور اس کا نقصان تو ہوتا ہی رہا ہے۔ حالیہ نقصان کا صدمہ بہت ہوا۔ مشتاق یوسفی صاحب نے اپنی تحریروں میں ہم جیسے نو آموز لکھنے والوں کو، اور انہیں بھی جو قلم کے دھنی ہیں، کئی بار ہدایت کی، آپ چاہیں تو اسے ایک معقول مشورہ بھی کہہ سکتے ہیں، کہ لغت سے رجوع کریں۔ یہ بات یوسفی صاحب نے اتنی بار کہی کہ وہ خود ہی پلّے بندھ گئی۔ جب کسی لفظ کے املا یا معنی میں الجھے لغت دیکھی۔ یہاں تک کہ اگر صدر کے تلفّظ کی بات ہوئی تو بھی لغت دیکھی کہ صحیح لفظ صَدَر ہے یا صَدْر۔’ گھمبیر‘ لکھا کرتا تھا۔ مختار مسعود نے بھی یہی لکھا ہے۔ مگر فیروزاللغات میں’ گمبھیر‘ ملا۔پہلی بار اسے درست کیا تھا مرحوم اشتیاق علی خان نے جو روزنامہ جنگ میں ادارتی صفحات پر کالم ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ اُس کے باوجود کہ مجھے ان کی صلاحیتوں پر پورا اعتماد تھا، کہ مرحوم بہت پڑھتے تھے، پھر بھی لغت دیکھی، اس نے میری جہالت کی نشاندہی کی۔ شکایت کا تو یوں بھی کوئی جواز نہیں تھا، شکریہ ادا کیا اور اپنی اصلاح کرلی۔ اب گمبھیر ہی لکھتا ہوں۔
دو اردو لغات دفتر میں ہیں، چند ایک گھر پر۔ اردو کی بھی اور انگریزی کی بھی۔ انگریزی کی ایک ڈکشنری تو خاصی پرانی ہے۔ ابّا مرحوم نے لاکر دی تھی، ایم اے کی تیاری کے دنوں میں ۔ اُس وقت اِس کی قیمت اٹھارہ روپے تھی، شروع کے پہلے صفحے پر یہ قیمت لکھی ہوئی ہے۔ اسی وقت کی بات ہے، شیکسپیئر کی ’کلیات‘ چھ روپے میں ملتی تھی۔ اور ذرا پہلے کی بات ہے، میری لائبریری کا ادارہ سستی کتابیں چھاپتا تھا۔ شاید اردو کی پہلی پیپر بک۔ اس زمانے کی کچھ کتابیں اب بھی موجود ہیں۔ ڈیل کارنیگی کی کتاب کا ترجمہ کمال احمد رضوی نے کیا تھا، وہی ڈرامہ نویس، معروف و مقبول۔ نام انہوں نے رکھا تھا’میٹھے بول میں جادو ہے‘۔ قیمت تین روپے تھی۔ مرحوم سید قاسم محمود بھی کیا بڑے ، منفرد (اور نظر انداز کئے گئے) فرد تھے۔ اتنی سستی کتابیں انہوں نے شائع کیں کہ میکاولی کی ’پرنس‘ کا ترجمہ ایک روپے میں مل جاتا تھا۔ مقصد ان سب کا یہ تھا کہ کتابیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی د سترس میں آجائیں۔ لوگ پڑھیں۔ پڑھانے کے اس جہاد میں قاسم محمود مرحوم نے تو اپنا بہت کچھ لٹا دیا تھا، مگر کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ افسوس تو انہیں اس بات کا تھا کہ ان کی سستی کتابوں کو ناکام بنانے کے لئے کتابوں کے کئی کاروباریوں نے گٹھ جوڑ کرلیا تھا۔ کاروباری کامیاب ہوگئے، اورقوم کو کتابیں پڑھانے کا خواہشمند آخری وقت تک اپنی امیدوں کے سہارے جیتا رہا۔
جب نیشنل بک فائونڈیشن بنی تو اس کا بنیادی مقصد، جہاں تک یاد ہے، دارالعلوم ندوہ کی کتابوں کی پاکستان میں اشاعت تھی۔ کچھ شائع بھی ہوئیں۔ پھراس ادارے کی حالت اگر خراب نہ رہی تو دگرگوں ضرور ہوگئی۔ مگر اب چند سال سے فائونڈیشن اچھی اور سستی کتابیں فراہم کررہی ہے۔ اس کا ایک ریڈرز کلب ہے، جس کی رکنیت حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اس کا فائدہ بہت۔ فائونڈیشن کی کتابیں پچاس، پچپن فیصد رعایت پر ان کے یہاں سے ارکان کو مل جاتی ہیں۔ اور بھی فائدے ہیں۔ کتابوں کے بے شمار تاجر ایسے ہیں جن کے یہاں سے کلب کے ارکان کو پچاس فیصد ر عایت ملتی ہے۔ بقایا قیمت فائونڈیشن ادا کرتی ہے۔ بھلا اس سے بہتر اور کیا ہوگا۔ کئی اور سرکاری ادارے ہیں، مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیات، مجلس علمی۔ وہ بھی کتابیں چھاپتے ہیں۔ رعایت بھی دیتے ہیں مگر فائونڈیشن کی طرح نہیں۔
خیال آیا کہ ابلاغیات سے متعلق ہونے کی وجہ سے ایک دو لغت شایدکبھی زیادہ تفصیل کی ضرورت پوری نہ کرسکیں۔ الفاظ اپنے استعمال کے حوالے سے بھی اپنے معنی تبدیل کرلیتے ہیں، کرتے ہی رہتے ہیں۔ بعض مرتبہ صحیح استعمال کے لئے کوئی تاریخی حوالہ، کسی معتبر نثّار کا کوئی جملہ، کسی استاد کے کسی شعر کا حوالہ مل جائے تو تفہیم میں بھی آسانی ہوگی اور بیان میں بھی۔ اس کے لئے ایک ہی راستہ ہے اردو ڈکشنری بورڈ کی باون برس میں تیار ہونے والی لغت حاصل کی جائے۔ کئی مرتبہ سوچا۔ عزیز ساتھی، موسیٰ کلیم نے ہمت بھی بڑھائی، ساتھ چلنے کا وعدہ بھی کیا، مگر وہی منیر نیازی والی بات کہ ہمیشہ دیر کردیتا ہوں ہر کام کرنے میں۔ لغت کا حصول موخر ہوتا رہا۔ بورڈ کا دفترگھر سے زیادہ دور نہیں۔ مگر اس کے بند ہونے اور میرے گھر سے نکلنے کے اوقات تقریباً ایک ہی سے ہیں۔ اور یہی باعث تاخیر بھی تھا۔ مگر آخر کب تک؟ لغت کی ضرورت بڑھتی گئی۔ بالآخر ایک دن بورڈ کے دفتر کا رخ کیا۔ دہرا صدمہ وہاں پہنچ کر ہوا۔ لغت کی بائیس جلدیں ہیں۔ بڑے بڑے اور نامور لوگوں نے اس کی تیاری میں اپنی زندگی کے قیمتی سال لگائے۔ تب نظر آئی ایک مصرعِ تر کی صورت۔ موسیٰ کلیم اور عزیز دوست ابوالحسنات نے جب اس کتاب کی خریداری کے لئے اصرار کیا تھا ، اور انہوں نے خریدی بھی تھی، اس وقت اس کی قیمت گیارہ ہزار روپے تھی، جی بائیس جلدوں کی اس عظیم کتاب کی قیمت صرف گیارہ ہزار روپے ۔ اس میں بھی طلباء اور صحافیوں کے لئے پچاس فیصد رعایت، یعنی صرف پانچ ساڑھے پانچ ہزار روپے میں کتاب آپ کی۔ علم پھیلانے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ کتابیں کم قیمت ہوں، آسانی سے دستیاب ہوں۔ کبھی آنہ لائبریریاں ہوا کرتی تھیں، ہر گلی کوچے میں ایک دو ضرور ہوتی تھیں۔ مطالعہ کی ابتدا ایسی ہی ایک لائبریری سے ہوئی۔ پھر برسوں ان کا ساتھ رہا۔ آج کے کتنے بڑے بڑے نام والے ان ہی لائبریریوں سے پڑھے ہیں۔ مگر اب ان کا نام ونشان نہیں ،کہاں گئیں؟ کچھ پتہ ہی نہیں چلا ۔ سو کوئی پانچ چھ ہزار روپے جیب میں ڈال کر بورڈ کے دفتر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ لغت اب کوئی چالیس ہزار روپے کی ہو گئی ہے۔ جی، چالیس ہزارہی کہا کسی نے۔ ایک جلد اب اٹھارہ سو روپے کی ہے۔ اور اس میں کوئی رعایت نہیں کسی کے لئے بھی، نہ طلبا کے لئے، نہ اساتذہ کے لئے نہ صحافیوں کے لئے۔ اور یہ کتاب کوئی نئی نہیں چھاپی گئی ہے۔ وہی پہلے کی چھپی ہوئی ہے جس کی قیمت کل گیارہ ہزار روپے تھی، اب اسی کے چالیس ہزار مانگے جارہے ہیں۔ اور یہ کام ایک ایسے ادارے میں ہوا جو سرکار سے امداد لیتا ہے اور اسی کے خرچ سے چلتا ہے۔ یہ کوئی کاروباری ادارہ نہیں۔ ایک نجی ادارہ تھا، اس نے بہت سی کتابیں شائع کی تھیں۔ کچھ بکیں کچھ اسٹور میں پڑی رہیں۔ عالمی کتاب میلے میں ان کے اسٹال پہ دیکھا، ان ہی پرانی کتابوں پر نئی اضافہ شدہ قیمتوں کی چپّی لگی ہوئی تھی۔ بہت جی جلا۔ مگر وہ تو ایک نجی ادارہ ہے۔ اور ظاہر ہے مالک نے ان کتابوں پر کافی پیسے لگائے ہوں گے، جو نہیں بک سکیں ان کی مالیت میں اضافہ اس کا حق بنتا ہے۔ مگر ایک سرکاری ادارے میں لغت کی قیمت میں اضافہ؟ اور وہ بھی غیر معمولی۔ اس کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ اردو کی ترویج اور تعلیم کے لئے ہوا ہے، مقصد تو اس کاالٹ نظر آتا ہے؟ اور وہاں بھی ان دنوں صرف سولہ جلدیں ہیں، باقی موجود نہیں ہیں۔ بورڈ کے سربراہ سید عقیل عباس جعفری سے یکطرفہ نیاز حاصل ہے۔ وہ ایک بہت منظّم فرد لگتے ہیں۔ ان کے پاس بہت سے نوادرات ہیں، جو وہ فیس بک پر ڈالتے رہتے ہیں۔ اُس دن بھی ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ ملتے تو شکایت اور گلہ تو کر ہی سکتا تھا، کتاب کی قیمت میں اضافے کی شکایت، اور اپنی محرومی کا گلہ۔
خیر ابھی بالکل مایوس نہ ہوں۔ محترم عرفان صدیقی، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ہیں اور اس حوالے سے اس بورڈ کے نگراں بھی۔ لغت کو آن لائن کرنے میں انکا بھی اہم کردار ہے۔ ان ہی سے درخواست کر تے ہیں کہ اس قومی لغت کی قیمت کم کریں اور اسے عام آدمی کی قوتِ خرید کے اندر ہی رہنے دیں۔ یہ اردو پر بڑا احسان ہو گا، اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی روح بھی خوش ہوگی۔ یہ ان کا شروع کیا ہوا منصوبہ تھا جو بالآخر پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، اور عام لوگوں ، اردو کے رسیا اور طلباء کی دسترس میں آگیاہے۔ اللہ آپکا بھلا کرے گا۔

تازہ ترین