• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اس موضوع پر لکھتے ہوئے دل کی عجیب کیفیت ہے، میں تو کافی عرصے سے اس موضوع پر کالم لکھنا چاہتا تھا مگر جب بھی لکھنے بیٹھتا لکھنے کی ہمت نہ ہوتی، شہید بے نظیر بھٹو کی شخصیت ہی ایسی تھی، ان سے پاکستان کے کسی خاص علاقے کے عوام نہیں سارے ملک کے عوام محبت کرتے تھے۔ میں نے تو ایک رپورٹر کی حیثیت سے انہیں نہ فقط قریب سے دیکھا ہے ان سے خصوصی بات چیت کی ہے اور اس سلسلے میں رپورٹنگ بھی کی ہے تو ان کے بارے میں رائٹ اپ بھی لکھے ہیں، مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ جتنی عوام ان سے محبت کرتے تھے اتنی ہی محبت محترمہ عوام سے کرتی تھیں، میں ایسے کئی مناظر کا عینی گواہ ہوں، کافی عرصے سے میں چاہ رہا ہوں کہ میں شہید بے نظیر بھٹو کے بارے میں کتاب لکھوں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میں اب تک مختلف اسباب کی وجہ سے یہ نہیں کرسکا ہوں، اب سوچ رہا ہوں کہ اخبارات میں ان کے بارے میں اپنی یادیں لکھوں۔ سچی بات یہ ہے کہ ایک صحافی کی حیثیت سے میں اس بات کا گہرائی سے جائزہ لیتا رہا ہوں کہ شہید بے نظیر بھٹو کے مقدمہ سے آصف زرداری، اس کی پارٹی اور حکومت کیوں ایک فاصلے پر رہے، ان کا سارا مقدمہ سرکاری وکیلوں پر چھوڑ دیا گیا، میں خود کافی عرصے سے اس موضوع پر لکھنا چاہتا تھا تو مجھے اس موضوع پر لاڑکانہ کے ایک باسی ذوالفقار قادری جو پی پی کے جیالے اور بھٹو خاندان کے انتہائی وفادار رہے ہیں کا ایک مکتوب اس موضوع پر ملا، وہ اپنے کسی ذاتی کام سے اسلام آباد گئے تو ان کو پتہ چلا کہ اس وقت فلاں عدالت میں شہید بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ چل رہا ہے، یہ سن کر وہ اس عدالت میں چلے گئے، وہاں پہنچنے پر انہیں پتہ چلا کہ سماعت کے دوران نہ پی پی کا کوئی وکیل پیش ہوا ہے اور نہ پی پی کا کوئی رہنما آیا ہے، یہ دیکھ کر اسے بہت دکھ پہنچا، بعد میں اس کی عدالت کے اہلکار سے ملاقات ہوئی وہ بھی روہانسا ہوکر بتارہا تھا کہ اس وقت پی پی کی حکومت تھی اور ملک کے صدر آصف زرداری تھے مگر سب نے اس کیس سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی۔ یہ مکتوب پڑھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں سب سے پہلے یہ مکتوب شامل کروں مگر افسوس کہ وہ مکتوب میری فائلوں میں گم ہوگیا مگر اب جبکہ عدالت کی طرف سے اس کیس کا فیصلہ سنانے کے بعد آصف زرداری کا بیان سامنے آیا ہے کہ اب وہ اس کیس میں پارٹی بنیں گے اور اپیل کریں گے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مقدمہ ریاست نے داخل کیا تھا مگر آصف زرداری یا پیپلزپارٹی کو اس کیس میں ایک پارٹی بننے سے کس نے روکا تھا؟ میں نے یہ کالم لکھنے سے پہلے اس سلسلے میں کچھ سینئر قانون دانوں سے بات چیت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پی پی یا زرداری خاندان چاہتے تو شہید بے نظیر بھٹو کے کیس میں الگ پارٹی کے طور پر شامل ہوسکتے تھے مگر پی پی اور اس کے سربراہ نے یہ سب کیوں نہیں کیا؟ کس نے انہیں کیس میں پارٹی بننے سے روکا تھا، میں یہ سوال محاورتاً نہیں کررہا ہوں؟ میرا یہ سوال قبلہ آصف زرداری سے ہے کہ کیا واقعی ’’کسی حلقے‘‘ نے آپ کو کیس میں پارٹی ہونے سے روکا تھا لہٰذا آپ اس وقت اس کیس میں پارٹی نہیں بنے۔ چلئے زرداری صاحب آپ شہید بے نظیر بھٹو کے مقدمہ میں پارٹی نہیں بنے مگر جناب اس عرصے کے دوران ملک کی حکمران پارٹی تو پی پی رہی اور آپ ملک کے صدر رہے، کیا بتایا جائے گا کہ حکمران پارٹی ہوتے ہوئے اس کیس میں کیا شواہد پیش کیے گئے؟ اگر جواب نہیں ہے تو اس رویے سے کیا نتیجہ نکالا جائے۔ چلئے آپ نے یہ بھی نہیں کیا اور چونکہ آپ کافی عرصہ ملک کے صدر رہے مگر یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ کے دور حکومت میں اور اس کے بعد آپ کی پارٹی سے منسلک سینئر وکلا جن میں خاص طور پر بیرسٹر اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ شامل ہیں، کیا ایک بار بھی ان میں سے کسی کو کہا گیا کہ وہ فلاں سماعت میں حاضر ہوکر جائزہ لیں کہ مقدمہ کس رخ جارہا ہے؟ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کیا سمجھا جائے کہ شہید بے نظیر بھٹو کے مقدمہ میں آپ کی دلچسپی اس رویے کی مظہر تھی۔ چلئے ان سینئر وکلا میں سے کسی کو ایک بار بھی کیس کی سماعت میں حاضر ہونے کے لئے نہیں کہا گیا مگر کیا پوچھا جائے کہ جب تک شہید بے نظیر بھٹو کا مقدمہ چلتا رہا اس دوران پی پی کے سینئر اور جونیئر رہنمائوں میں سے کوئی قیادت کی ہدایات کے تحت یا اپنے طور پر اس مقدمہ کی کسی سماعت کے وقت عدالت میں حاضر ہوئے؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو کیا سمجھا جائے؟ چلئے پارٹی رہنمائوں کو بھی چھوڑیئے، زرداری صاحب ملک کے صدر تھے تو کیا کبھی ان کی بہن فریال تالپور جوزرداری کے بعد پی پی حکومت اور پی پی میں نمبر دو پوزیشن کی حامل ہیں، کبھی مقدمہ کی کسی سماعت کے وقت عدالت میں حاضر ہوئیں۔ مجھے زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب محترمہ کے تینوں بچوں بلاول، بختاور اور آصفہ میں سے بھی کوئی ایک بار بھی اپنی عظیم والدہ کی شہادت کے مقدمہ کی کسی سماعت کے دوران عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔ اگر واقعی یہ اطلاعات درست ہیں تو میرے ذہن میں اس سوال کے اٹھنے کا یقینی طور پر جواز ہوگا کہ ’’کیا شہید بے نظیر بھٹو کا کوئی والی وارث ہے؟‘‘ اتنا لکھنے کے بعد اب خاص طور پر اس زاویئے سے مزید لکھنا میرے بس میں نہیں۔ لہٰذا اب میں اس ایشو کے دوسرے اہم پہلو کا ذکر کروں گا۔ یہ سب کے علم میں ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لئے اقوام متحدہ کا کمیشن بھی پاکستان اور شاید کچھ دیگر ملکوں میں گیا تھا اور اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کی ایک ٹیم بھی اس قتل کی تحقیقات کرنے کے لئے پاکستان آئی تھی، ان دونوں ٹیموں کے ذریعے تحقیقات کرانے کے لئے خود پی پی حکومت اور صدر آصف زرداری نے فیصلہ لیا تھا جو ایک انتہائی مناسب قدم تھا مگر اس سلسلے میں بھی اس وقت کئی حلقوں سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ جب حکومت کو یہ رپورٹیں پیش ہوئیں تو اس وقت بھی زرداری اور پی پی کی حکومت تھی، یہ دونوں رپورٹیں عدالت میں پیش کرنے کے ساتھ میڈیا کے ذریعے عوام کے علم میں لانے کے لئے بھی مشتہر کرنے کی ضرورت تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا، اگر یہ کرنا ضروری تھا تو ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ مختلف حلقوں نے یہ بات بھی ظاہر کی ہے کہ آصف زرداری کی حکومت نے دونوں ٹیموں کی تحقیقات کے لئے انتہائی محدود ٹرمز آف ریفرنس متعین کیے تھے، یعنی ان ٹیموں کو کہا گیا تھا کہ فقط اس بات کی تحقیقات کی جائے کہ محترمہ کے انتقال کا سبب کیا تھا جن حلقوں نے یہ انکشاف کیا ہے انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آخر ان ٹرمز آف ریفرنس کے ذریعے ان ٹیموں کو یہ ذمہ داری کیوں نہیں دی گئی کہ معلوم کریں کہ شہید بے نظیر بھٹو کے قتل کے کون سے عناصر ظاہری اور خفیہ طور پر ذمہ دار تھے‘ آخر اصل ملزموں کے ظاہر ہونے سے کس کو ڈر تھا۔

تازہ ترین