• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میانمار میں سرکاری فوج اور بودھ مت کے انتہا پسندوں نے مظلوم مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر پورا عالم اسلام تڑپ اٹھا ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں وہاں 400سے زائد نہتے مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا جبکہ 90ہزار مسلمان بنگلہ دیش میں ہجرت کرچکے ہیں۔ اب تک بنگلہ دیش میں سوا لاکھ برمی مسلمان پہنچ چکے ہیں۔ برمی فوج اور بودھ مت کے پیروکاروں نے ایک بار پھر دہشت گردی کی انتہا کردی ہے۔ سینکڑوں مسلمان خواتین اور بچوں کے سر قلم کردیئے گئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ امن کی نو بل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی سرپرستی میں یہ خونی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ برما میں حالیہ بدترین مظالم نے تو چنگیز خان اور ہلاکو خان کے جرائم کو بھی مات دے دی ہے لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر اقوام متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ میانمار برما کی سرحدیں بنگلہ دیش، چین اور بھارت کے ساتھ لگتی ہیں۔ میانمار میں ایک طویل عرصے تک فوجی آمریت قائم رہی۔ قیام پاکستان سے قبل رخائن برما کے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کا حصہ بنیں مگر ایسا نہ ہوسکا۔ برما میں فوجی آمریت کے طویل دور میں مسلمان بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھے گئے تھے بلکہ آج تک میانمار کے مسلم باشندوں کو شہری آزادی اور جائز انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کسی بھی فرد کو برما کے قانون کے تحت شہری کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ اس کالے قانون کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی شناختی دستاویزات حاصل ہوسکتی ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں نے برما میں ظلم وستم کا ایسا بازار گرم کر رکھا ہے کہ جس کی دنیا بھر میں کہیں نظیر نہیں ملتی۔ بدھ مذہب کے پیروکار ویسے تو امن کے پرچارک ہیں مگر حیرت یہ ہے کہ امن کا درس دینے والوں نے سینکڑوں نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کو زندہ جلا ڈالا ہے۔ مسلمان خواتین کی عصمت دری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سسکتے بلکتے بچے دریا برد کئے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم تجربے کے بعد نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوسکتا ہے تو پھر اراکان روہنگیا کے مسلمانوں پر تاریخ کے بدترین ظلم پر سلامتی کونسل فوری طور پر حرکت میں کیوں نہیں آتی؟ پاکستان، ترکی اور سعودی عرب کو اس اہم اور حساس معاملے پر عالمی فورمز میں بھرپور آواز اٹھانی چاہئے۔ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کے لئے چین اور دوسرے دوست ملکوں کی مدد لینی چاہئے۔ اگرچہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس مسئلے پر برمی حکومت کے ساتھ شدیداحتجاج کیا ہے۔ لیکن وقت اور حالات کا یہ ناگزیر تقاضا ہے کہ پاکستانی حکومت ترکی کی طرح چند قدم اور آگے بڑھائے اور برما کی حکمران آنگ سان سوچی پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ اراکان کے مسلمانوں پر مظالم فوری ختم کروائے۔ اگر یہ سلسلہ پھر بھی نہ رکے تو برما کی حکومت کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ برما کے ساتھ پاکستانی حکومت اپنے سفارتی تعلقات ختم کرے اور مالدیپ کی طرح میانمار کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ بھی کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ برما کے مسلمان وہاں چھ سو سال سے رہ رہے ہیں۔ بدھ مت کے انتہاپسندوں اور برمی فوج کے بدترین مظالم کا عالمی برادری کو سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ برما کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی جنہیں آمریت کے خلاف جدوجہد میں نوبیل امن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ان کے اپنے دور میں آمرانہ ہتھکنڈوں سے مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام کیا جارہا ہے۔ برما کے مظلوم مسلمانوں کو اس انسانیت سوز سلوک سے بچانے کے لئے امت مسلمہ کو متحرک اور متحد ہونا ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں او آئی سی کے پلیٹ فارم سے برما کا معاشی اور سفارتی بائیکاٹ کیا جانا چاہئے۔ سوچی روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام کی اصل ذمہ دار ہیں ان سے نوبیل انعام واپس لے لینا چاہئے۔ سوچی بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کی طرح ایک ظالم اور سفاک عورت کے روپ میں سامنے آئی ہیں۔ پاکستان سمیت مسلمان ممالک کوبرمی حکومت کے خلاف یک آواز ہونا ہوگا اور میانمار حکومت کو وارننگ دینی چاہئے کہ اگر وہاں معصوم مسلمانوں کا قتل عام بندنہ ہوا تو اسلامی ملکوں کی فوج کو وہاں بھیجا جائے گا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ چینی شہر شیامن میں ہونے والی پانچ ملکوں کی برکس کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد اور روہنگیا میں بدترین مظالم پر کوئی بات نہیں کی گئی اسکے برعکس چین، روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ کی تنظیم برکس کے مشترکہ اعلامیہ میں پہلی بار نام لے کر پاکستان میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف اقدام پر زور دیا گیا ہے۔ اگرچہ حکومت پاکستان نے برکس کے مشترکہ اعلامیہ کو مسترد کردیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ دہشت گردتنظیمیں افغانستان میں ہیں اور پاکستان میں کسی بھی دہشتگرد تنظیم کی محفوظ پناہ گاہ موجود نہیں ہے۔ پاکستانی سفیروں کی کانفرنس میں امریکی الزامات کو بھی مسترد کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہندوستان سے برابری کے ساتھ تعلقات چاہتے ہیں۔ مگر خطے میں بھارت کی اجارہ داری قائم نہیں ہونے دیں گے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ امریکہ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنا چاہتا ہے۔ امریکی گیم پلان کے مطابق بھارت برکس ممالک کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان میں دہشتگردوں کے گروپوں کا نام شامل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں دہشتگردی کا کوئی مرکز نہیں ہے۔ چین نے ہمیشہ عالمی فورمز پر پاکستانی موقف کی کھل کر حمایت کی ہے لیکن اس بار انڈیا اپنی چال میں کامیاب رہا ہے اور اُس نے چین کو بھی اس معاملے میں اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ اس اقدام سے خطے میں چین کے روابط پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ چین نے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے جس کا احساس اسے آئندہ چند برسوں میں ہوگا۔ ہندوستان پاک چین تعلقات خراب کرکے سی پیک کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چینی حکومت کو اس سلسلے میں اپنی پوزیشن جلد واضح کرنی چاہئے۔ چین پاکستان کا دوست ملک ہے۔ وہ جنوبی ایشیا بالخصوص افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ اُس نے ماضی میں افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ انڈیا افغان انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کروا رہا ہے اور افغانستان میں امن کی راہ میں بھارت رکاوٹ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان کا کردار قائدانہ ہے اور اکثر و بیشتر علاقے بھی طالبان کے زیرکنٹرول ہیں۔ پاکستان اور چین کی یہ پالیسی رہی ہے کہ افغان مسئلے کا حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ اس لئے امریکہ کو افغان طالبان سے مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امن کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔ حکومت پاکستان کو اس بدلتے ہوئے منظرنامے پر چین سمیت اپنے دوست ملکوں کے ساتھ رابطہ کرنا چاہئے اور ہندوستان کے مکروہ عزائم کو ناکام بنانے کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی پاکستان کو دھمکی کے بعد برکس کانفرنس کا اعلامیہ ہمارے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت سی پیک پر کام بڑی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور میں روس، ایران، سعودی عرب، ترکی اور خطے کے دیگر ممالک خاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان حالات میں خارجہ پالیسی کے نئے خدوخال واضح کرنا ہوں گے۔ اس وقت چین اور روس دونوں پاکستان کے قریب آچکے ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے مقابلے کے لئے چین اور روس کے ساتھ ہمارے روابط زیادہ مضبوط اورمستحکم ہونے چاہئیں۔

تازہ ترین