• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ دنیا کے کچھ ممالک اور فورمز کی طرف سے دہشتگردی کے بارے میں ہمارے خلاف لگائے گئے الزامات کو دورکیا جاسکے۔ ان کا یہ بیان روس، چین، برازیل، سائوتھ افریقہ اور بھارت کی آرگنائزیشن برکس کے اعلامیے میں لشکر طیبہ، جیش محمد، جماعت الاحرار، حقانی نیٹ ورک اور کچھ دوسری دہشت گرد تنظیموں کو شامل کرنے کے بعد آیا۔ اس سے قبل انہی آرگنائزیشنز کا ذکر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس جس کا پاکستان بھی ممبر ہے کے اعلان امرتسر میں بھی آچکا ہے۔ اس لحاظ سے برکس ڈکلیئریشن میں ان کا ذکر آنا کوئی نئی بات نہیں تاہم پھر بھی پاکستان کو برکس اعلامیے پر سخت تشویش لاحق ہوئی کیونکہ اس کی ٹائمنگ بہت اہم تھی۔ یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ ماہ کے پاکستان کے خلاف سخت بیان کے بعد آیا ہے۔ اگر ان دونوں بیانات کو ملا کر پڑھا جائے تو ان کی زبان میں فرق ضرور ہے مگر مطلب اور مقصد ایک ہی ہے۔ برکس اعلامیے کے بعد پاکستان پر یقیناً دبائو بڑھا کہ وہ ان تنظیموں جن پر اس نے پہلے ہی پابندی لگا رکھی ہے کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ وزیر خارجہ کا بیان اسی تناظر میں سامنے آیا جس میں ایک طرح کا اعتراف موجود ہے کہ ہمیں اپنے گھر کی خبربڑی ذمہ داری سے رکھنی چاہئے تاکہ دنیا کی انگلیاں ہم پر نہ اٹھیں، ہمیں معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان اس وقت تین محاذوں پر لڑ رہا ہے کیا ہم اسی چکر میں لگے رہیں گے۔ ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے اور اس کا جواب بھی تلاش کرنا چاہئے کہ ہمیں شک کی نگاہ سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟ ظاہر ہے ان شکوک و شبہات کے پیچھے کچھ اور بھی مقاصد ہیں مگر ہمیں انہیں ایک طرف رکھ کر اپنے گھر کی خبر ضرور لینی چاہئے کہ اس میں تو کوئی مسائل نہیں ہیں۔ ایک سے زائد بار چین نے برکس اعلامیے کے بارے میں وضاحت کی ہے تاکہ پاکستان کی تشویش و تحفظات کو دور کیا جاسکے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ برکس کے کچھ ممبر ممالک چاہتے تھے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا جائے۔ تاہم اس میں حقیقت کم ہی نظر آتی ہے کیونکہ ان آرگنائزیشنز کو صرف اور صرف بھارت کے اصرار پر ہی اعلامیے میں شامل کیا گیا۔ برازیل اور سائوتھ افریقہ کا اس مسئلے سے کیا لینا دینا ہے اسی طرح روس اور چین کو بھی ان تنظیموں کے خلاف کچھ زیادہ سروکار نہیں ہے۔
خواجہ آصف کے مختصر دورہ چین کا مقصد بھی اعلیٰ چینی حکام کو پاکستان کی تشویش سے آگاہ کرنا ہے۔ پاکستان میں چین کے سفیر کا کہنا ہے کہ اس دورے کے دوران پاکستان کی تسلی کے لئے مزید وضاحت کر دی جائے گی اور ان کا ملک دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا معترف ہے۔ چین جیسے دوست ممالک پاکستان کی قربانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر امریکہ ان کا زیادہ قائل نہیں ہے۔ سائوتھ ایشیا کے بارے میںاپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس کی مرضی کے مطابق دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی نہ کی تو امریکہ ان کے ’’محفوظ ٹھکانوں‘‘ کو ختم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا جس کا مطلب ہے کہ امریکہ ایسی مشتبہ جگہوں پر ڈائریکٹ حملہ کردے گا ۔ ابھی پاکستان اس بیان کی وجہ سے آنے والے دبائو کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ برکس اعلامیہ بھی آگیا جس نے ہماری مشکلات کو مزید بڑھا دیا۔ پاکستان توقع نہیں کر رہا تھا کہ چین میں ہونے والی برکس کانفرنس کا ڈکلیئریشن ایسا ہو گا ۔ اس اعلامیے میں یقیناً فتح بھارت کی نظر آتی ہے کیونکہ وہ ممبر ممالک کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ ان تنظیموں کا ڈائریکٹ ذکر اس کے بیان میں کیا جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ نے روس، چین اور ترکی کے دوروں کا پروگرام بنایا تھا تاکہ وہ ان ممالک کو امریکی صدر کی حکمت عملی کے بارے میں پاکستان کے نقطہ نگاہ سے آگاہ کر یںاور ان کی حمایت حاصل کر سکیں۔ اس بیان کے بعد انہوں نے امریکہ کا دورہ جو کہ پچھلے ماہ ہونا تھا کو بھی ملتوی کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ واشنگٹن ماسکو ،بیجنگ اور انقرہ کے دوروں کے بعد جائیں گے۔ تاہم برکس اعلامیے نے صورتحال کو کافی حد تک تبدیل کر دیا ۔ پاکستان کے تعلقات بھارت، روس اور امریکہ کے ساتھ تو کافی حد تک اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں مگرہر موسم اور ہر دور میں یہ چین کے ساتھ ہمیشہ بہترین ہی رہے ہیں۔ ان تعلقات میں بے مثال بہتری سی پیک کی وجہ سے آگئی ہے۔ دنیا کے کچھ ممالک خصوصاً امریکہ، برطانیہ اور بھارت سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مختلف حربوں سے سی پیک ناکام بنائیں مگر پاکستان اور چین نے مصمم ارادہ کر رکھا ہے اور اس کے لئے ٹھوس اقدامات بھی کر رہے ہیں کہ ان منصوبوں کو ہر صورت کامیاب کرنا ہے۔ جوں جوں سی پیک کامیابیوں کی بلندیوں کو چھوئے گا پاکستان پر مختلف حیلوں اور بہانوں سے دبائو آتا رہے گا۔
ساڑھے چار سال تک چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے نوازشریف کے خلاف ہر وہ غیرقانونی و غیر آئینی حربہ استعمال کیا (جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی) تاکہ ان کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیا جائے اور وہ ان کی جگہ لے لیں مگر اب ان کا کہنا ہے کہ شکر ہے کہ وفاقی حکومت نہیں ملی ورنہ وہاں بھی کے پی جیسا حال ہوتا، ناتجربہ کاری کے باعث ایک سال تک معاملات کا پتہ ہی نہیں چلا اور ہماری اپنی جماعت کے ارکان صوبائی اسمبلی اور صوبے کی بیورو کریسی بلدیاتی نظام کی مخالف ہے۔ اس سے بہتر ناکامی کا اقبالی بیان کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ یہی بات پی ٹی آئی کے مخالفین 2013سے لے کر آج تک لگا تار کہہ رہے ہیں مگر عمران خان نے ان کی ایک نہیں سنی اور اب خود ہی سچ ان کی زبان پر آگیا ہے جس کا خمیازہ انہیں آئندہ عام انتخابات میں یقیناً بھگتنا پڑے گا۔ ان سالوں کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی پاکستان کے ہر علاقے خصوصاً پنجاب پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے دورے کرتے رہے ہیں مگر کے پی ان کی کبھی بھی پہلی ترجیح نہیں رہا حالانکہ انہیں بار بار یہ کہا جاتا رہا کہ وہ اس صوبے پر زیادہ توجہ دیں جہاں ان کی حکومت ہے اور اسے ایک ماڈل بنائیں تاکہ دوسرے صوبوں کے لوگ دوسری سیاسی جماعتوں کی بجائے پی ٹی آئی کی طرف دیکھنے لگیں ۔ اب ذرا غور کریں کہ کے پی سے کیا خبریں آرہی ہیں۔ صوبے کے لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن پروجیکٹ میں 44کروڑ سے زائد کی بے قاعدگیاں، پی ٹی آئی حکومت کی شاہ خرچیاں، وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں سوئمنگ پول بنانے کا فیصلہ، ایک ارب نئے درخت لگانے کے پروجیکٹ میں بڑے گھپلے، انڈسٹریل پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے نئے یونٹ نہیں لگ سکے وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف کچھ سازشی عناصر نے جعل سازی کر کے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے خلاف ملتان میٹرو پروجیکٹ میں ’’کرپشن اسکینڈل‘‘ کا انکشاف کیا اور بالآخر ان کا منہ کالا ہوا کیونکہ فراڈ ثابت ہوگیا اور یہ تماشا کچھ لمبا نہیں چل سکا۔ شنید یہ بھی ہے کہ اسی’’اسکینڈل‘‘ کا ذکر پاناما جے آئی ٹی کے والیوم ٹین میں بھی ہے اگر ایسا ہوا تو اس رپورٹ کا مزید جنازہ نکل جائے گا اور ثابت ہو جائے گا کہ اس میں سوائے جعل سازی کے کچھ بھی نہیں ہے۔

تازہ ترین