• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی خارجہ پالیسی کیلئے بھی نئی سمت کے تعین کو ضروری قرار دے کر ایک ایسی حقیقت کی نشان دہی کی ہے جسے ہر باشعور پاکستانی شدت سے محسوس کررہا ہے۔ پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے امریکہ سمیت ان ملکوں کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ممکن ہوگا جو باہمی احترام کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ختم نہیں ہوئے لیکن آئندہ امریکہ سے قومی مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاملات طے کیے جائیں گے۔ خواجہ آصف نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کیلئے نئی امریکی پالیسی کے اعلان کے موقع پر صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کے تناظر میں دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بننے دیں گے ۔ پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کا سرپرست قرار دیے جانے کے الزامات کے حوالے سے انہوں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے خطاب میں ایک بار پھر پاکستان کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ کسی کو افغانستان کی جنگ پاکستان کی سرزمین پر لڑنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ بھارت کو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکا جانا ہوگا۔انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں صدر ٹرمپ کی فوجی حل کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوگی اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جانا ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کے اعلان میں افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی جو کوشش کی تھی ، پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے بلاشبہ اس کے جواب میں حقائق پر مبنی جرأت مندانہ موقف اپناتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ پاکستان سے افغانستان کی جنگ پاکستان میں لڑنے کا مطالبہ سراسر غیر معقول اور بے جواز ہے۔ پاکستان کی ذمہ داری اتنی ہی ہے کہ وہ اپنی صفوں کو دہشت گردوں سے پاک کرے اور اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے جبکہ یہی ذمہ داری افغانستان اور بھارت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ پاکستان اپنی ذمہ داری ادا کررہا ہے لہٰذا عالمی برادری کو بھارت اور افغانستان کو بھی ایسا کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ لیکن صدر ٹرمپ کی نئی پالیسی میں دہشت گردی کیخلاف پاکستان کے مثالی اقدامات اور اس کے مقابلے میں خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے بھارت کی ریشہ دوانیوں ،کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور پاکستان کو دنیا میں تنہا کردینے کے علانیہ موقف کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کی مکمل پشت پناہی اور پاکستان کو خرابی کی جڑ قرار دینے کی بے جواز کوشش کی گئی ہے۔ لہٰذا پاکستان کیلئے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ وہ امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کرتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق نئی خارجہ پالیسی تشکیل دے۔ دنیا میں چین و روس اور ترکی وایران کی شکل میں ابھرنے والی عالمی اور علاقائی طاقتیں امریکہ کے خود غرضانہ کردار کے حوالے سے بہت واضح موقف رکھتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے بالکل درست طور پر نئی خارجہ پالیسی کی تشکیل کیلئے ان ملکوں سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے اور وزیر خارجہ خواجہ آصف چین کے دورے پرپہنچ گئے ہیں۔ نئی اور باوقار قومی خارجہ پالیسی کی تشکیل کیلئے یہ رابطے یقینا مددگار ثابت ہوں گے جبکہ قومی معیشت کے استحکام کی نئی راہیں بھی کھلیں گی جو آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ تاہم خارجہ پالیسی کے نئے خطوط کے تعین میں پارلیمنٹ کی بھرپور شرکت اور وسیع تر قومی مشاورت کا اہتمام بھی لازماً کیا جانا چاہئے تاکہ اجتماعی دانش اس عمل میں شریک ہو اور قومی مفادات سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ خارجہ پالیسی وجود میں آسکے۔

تازہ ترین