• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا وسطی ایشیا اور مشرقی و مغربی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کو توسیع دینے کی ضرورت پر زور دینا معروضی حالات میں وقت کا اہم تقاضا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری جیسے عظیم تر منصوبے کے تناظر میں یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک کی اقتصادی تنظیم (کیرک) تیل و گیس پائپ لائنوں، انفرا اسٹرکچر، بجلی کے گرڈ اورٹرانسپورٹ نیٹ ورک کے ذریعے آپس میں رابطے قائم رکھنے میں نہایت فعال ثابت ہو گی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی توانائی کا بحران ہے۔ جس کی وجہ سے بجلی اور گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کثیر زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے۔ جس سے تجارتی خسارہ 2016-17میں 32.578ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو پچھلے سال 23.898 ارب ڈالر تھا۔ چین کے شہر ارومچی میں کیرک انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ رکن ممالک کو ہوا بازی، کیپٹل مارکیٹ اور ترقی میں اضافے کے لیے تعاون بڑھانا چاہئے۔ پاکستان قدرتی وسائل کی فراوانی اور بہترین زرعی و صنعتی نظام کے باوجود اپنی برآمدات بڑھانے کے مطلوبہ اہداف گزشتہ70برس میں بہت کم حاصل کر پایا ہے۔ اس دوران جب بھی برآمدات میں بہتری آئی تجارتی میلوں، ایوان ہائے صنعت و تجارت کے وفود کے تبادلہ اور سفارتی کوششوں نے اس میں فعال کردار ادا کیا۔ اب بھی تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے از سر نو تجارتی پالیسی بنا کر حالات کو بہتربنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان اس وقت کیرک سمیت بہت سی علاقائی اور عالمی تنظیموں کا رکن ہے، نہ صرف سفارتی، بلکہ قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر ایسے رجحانات کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیئے جس سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ادائیگیوں کا توازن بہتربنانے کے لیے درآمدات کی حتی الوسع حوصلہ شکنی کی جائے، ملکی ایوانہائے صنعت و تجارت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطے رکھے جائیں، بیمار صنعتوں بالخصوص زرعی صنعتوں کی بحالی کے اقدامات بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تازہ ترین