• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت داخلی طور پر سیاسی عدم استحکام کا شکارہے جبکہ دوسری طرف 70 سال سے جاری اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے کے تاریخی جبر کا سامنا کر رہا ہے ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اس سیاسی بے یقینی کے ماحول میں اور عالمی پائے کی سیاسی قیادت کے فقدان میں پاکستان کیا اپنی خارجہ پالیسی کو نئی سمت دے سکے گا اور کیا علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی نئی صف بندیوں اور ابھرتے ہوئے نئے عالمی تضادات کا متحمل ہو سکے گا ۔ داخلی طور پر ملک میں سیاسی استحکام کے حوالے سے دو متضاد آرا پائی جاتی ہیں ۔ ایک حلقے کا خیال یہ ہے کہ پاکستان سیاسی استحکام حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے ۔ اس کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد جمہوریت کا تسلسل جاری ہے ۔ پارلیمنٹ موجود ہے اور شاہد خاقان عباسی نئے وزیر اعظم کے طور پر حکومت چلا رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے قائدین بھی یہی کہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد جمہوریت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے جبکہ ایک دوسرے حلقے کا خیال اس کے برعکس ہے ۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ احتساب کے نام پر سیاست دانوں کے خلاف جو عمل شروع ہوا ہے، وہ صرف میاں محمد نواز شریف، ان کے اہل خانہ اور قریبی ساتھیوں تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور ملک کی قد آور اور مقبول سیاسی قیادت یا تو سیاسی طور پر ختم ہو جائے گی یا اس کا ملکی سیاسی امور میں کردار محدود ہوجائے گا۔ یہ حلقہ احتساب کے عمل کو ماضی کے تناظر میں دیکھتا ہے اور اسے نئے حربے سے تعبیر کر رہا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامی لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ احتساب کا دائرہ پاکستان کی حقیقی حکمران اشرافیہ تک وسیع کیوں نہیں کیا جاتا اور کچھ عناصر مقدس گائے کیوں بنے ہوئے ہیں۔ اس حلقے کے لوگ پاکستان کے حالات کو عرب دنیا کے حالات سے جوڑتے ہیں، جہاں 2010 ء کے آخر میں ’’بہار عرب‘‘ کے نام سے کرپشن اور شاہی و سیاسی خانوادوں کی سیاسی طاقت اور دولت کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی تھی، جس کا نتیجہ انتشار، خونریزی، افراتفری اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں نکلا۔ وہاں لبرل اور اعتدال پسند سیاسی قوتوں کا خاتمہ ہو گیا اور دائیں بازو کی انتہا پسند قوتوں نے اس خلاکو پر کیا۔ عرب دنیا کے اس بحران سے وہ منظر نامہ ابھر کر سامنے آیا، جس کی نشاندہی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’’مفاہمت‘‘ میں کچھ سال پہلے کر دی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے لکھا تھا کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی دنیا کو تہذیبوں کے تصادم کے نظریئے کی بنیاد پر تقسیم کرکے اپنا عالمی ایجنڈا پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ایجنڈے کے تحت مسلم ممالک میں انتہا پسند قوتیں مضبوط ہوں گی اور مغرب کو اس انتہا پسند ’’اسلامی بلاک‘‘ کے خلاف صف آراکیا جائے گا۔ اسلامی ممالک اپنے داخلی انتشار کی وجہ سے دنیا میں ہونے والی نئی صف بندی میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔
دوسرے حلقے کا نقطہ نظر زیادہ مدلل ہے۔ پاکستان ایک عالمی اسکیم کے تحت اسی طرف جا رہا ہے ، جس طرف عرب دنیا پہلے جاچکی ہے۔ کچھ دنوں میں حالات مزید واضح ہوجائیں گے۔ اگر جمہوریت چلتی بھی رہے تو بھی بڑے سیاست دانوں کا کردار بہت محدود ہوگا۔ بدلتی ہوئی دنیا میں پاکستان کے کردار کا تعین کرنے اور اس تبدیلی کے طوفان سے پاکستان کو خیریت سے نکالنے کے لئے جس سیاسی قیادت اور اس قیادت کی مکمل اتھارٹی کی ضرورت ہے، وہ مفقود ہوگی۔
آج اگر پاکستان اپنی پالیسی تبدیل کرنے اور پرانی خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کی بنیاد پر اس سے غیراعلانیہ لاتعلقی کا اظہار کر رہا ہے تو اس میں پاکستان کی سیاسی قیادت کا کوئی کردار ہے اور نہ ہی غیرسیاسی قیادت کا کوئی شعوری فیصلہ ہے۔ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں امریکہ نے پاکستان کو اپنے کیمپ سے باہر نکال کر کھڑا کر دیا ہے۔ اگرچہ امریکہ یہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ پاکستان کا ’’نان نیٹو‘‘ اہم ترین اتحادی کا درجہ ختم کر دے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو ممالک پہلے ہی پاکستان کا یہ درجہ ختم کر چکے ہیں۔ انہیں ابھرتی ہوئی غیر مغربی عالمی طاقتوں خصوصاً چین کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے بھارت اور جاپان پر زیادہ انحصار کرنا ہے۔ افغانستان میں فوجی موجودگی کے علاوہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو چین اور روس کے ارد گرد مزید فوجی موجودگی کا جواز پیدا کرنا ہے۔ امریکہ کو جو پاکستان سے کام لینا ہے، وہ پاکستان کے غیرریاستی عناصر سے لے رہا ہے۔ جن کے خلاف پاکستان کے لئے کارروائی کرنا آسان نہیں۔ پاکستان اگر اس وقت امریکی کیمپ سے نکل جاتا، جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے وزیر خارجہ اور بعد ازاں پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے امریکی کیمپ سے نکالنے کی کوشش کی تھی اور اس کے خطرناک نتائج سے نمٹنے کے لئے علاقائی اور عالمی سطح پر اشتراکی، غیرجانبدار اور اسلامی ممالک کی حمایت کی ڈھال حاصل کر لی تھی۔ اب نہ تو ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیڈر ہے اور جو لیڈرز ہیں، وہ بھی اپنی سیاسی بقا کی کوششوں سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پاکستان کو تاریخی جبر اور بدلتے ہوئے حالات نے چین اور روس کے تشکیل پذیر نئے بلاک کی طرف دھکیل دیا ہے۔ خطرناک نتائج سے بچنے کے لئے وہ ڈھال بھی نہیں ہے۔ نئی خارجہ پالیسی کے لئے کوئی سیاسی وژن نہیں ہے۔ صرف ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز بنانے کے لئے سیاست دانوں کی بیان بازی ہے ۔ نئی خارجہ پالیسی کا انحصار اس ’’ملٹری ڈاکٹرائن‘‘ پر ہوگا، جو پاکستان کو مشرقی اور مغربی سرحدوں پر درپیش خطرات اور پاکستان کے اندر دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے اختیار کی گئی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سویلین حکمرانوں کا کردار پہلے ہی محدود رہا ہے اور اب پہلے سے بھی زیادہ ابتر صورت حال ہے۔ پاکستان ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ پر ہے۔ پاکستان کے تمام ذمہ دار حلقوں کو اپنے اہداف اور اپنی سوچ پر نظرثانی کرنا ہو گی۔

تازہ ترین