• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معروف ماہرِ اقتصادیات پیٹر جارج سکیو اپنی تازہ آمدہ کتاب ’’!Capitalists ARISE‘‘،’’سرمایہ دارو جاگو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام آہستہ آہستہ خودکشی کر رہاہے۔انہوں نے سرمایہ داری نظام کا اپنی اصل روح سے روگردانی کو اس کی اصل وجہ قرار دیا ہے ۔ سرمایہ داری نظام کی اصل بقا سرمایہ اور اس پر حاصل ہونے والے منافع کی بار بارسرکولیشن میں ہے۔گوکہ اس سے سرمایہ دار کو منافع کم اور دیرمیں وصول ہوتا ہے مگر یہی عمل اس نظام کی بقا کی بھی ضمانت ہے ۔اگر پچاس اور ساٹھ کی دہائی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام سرمایہ دار کمپنیوں نے کسی تحریری پابندیوں کے نہ ہوتے ہوئے بھی ملازمین کی تنخواہوں اور ان کی فلاحی مراعات میں مستقل بنیادوں پر اضافہ کیا۔ جو اضافہ ملازمین کو تنخواہوں اور مراعات کی شکل میں دیا جاتا وہ اخراجات کی شکل میں اسے خرچ کرتے اور یوں وہ پیسہ سرکولیشن کا حصہ بن جاتا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار بھی منافع کو نئی انڈسٹریاں لگانے میں صرف کرتا جس سے نئی ملازمتیں پیدا ہوتیں اور سرمائے کی سرکولیشن میں بتدریج اضافہ ہوتا رہتا ۔یوں منافع کا حصول قدرے کم اوردیر میں ملتا،لیکن اس سے آجر اور اجیر کے درمیان ایک رشتہ بنتا جو سماجی ہم آہنگی کی ترویج کرتا اور یوں معاشرے میںبڑے پیمانے میں دولت کا ارتکاز ممکن نہیں رہتا۔نوے کی دہائی میں سرمایہ داری نظام نے فوری منافع کے حصول کو اپنا نصب العین بنا لیا، دولت کا ارتکاز ایک فیصد اشرافیہ کے ہاتھ میں آگیا ۔امریکہ میں یہ اشرافیہ(special interest Group) چند ارب پتیوں اور ایک ہزار کارپوریشنز کا نام ہے جوکہ پوری دنیا میں اپنی مرضی کے قوانین آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے نافذ کرتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا ادارہ تیسری دنیا کو تحفظ دینے سے محروم ہو گیا اور خود اس کو اپنی بقا کے لالے پڑ گئے ۔درمیانے درجے کے ملازمین کی تنخواہوں اور فلاحی مراعات میں بتدریج کمی ہوگئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیسے کی سرکولیشن میں بھی کمی ہوئی جس کی وجہ سے سرمایہ داری نظام کو نقصان پہنچا۔آکسفم (Oxfom) کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آدھی دولت کی مالک ایک فیصد آبادی بن گئی اور خدشہ ہے کہ اگر اسی رویے کو اپنائے رکھا تو کچھ سالوں میں یہ ایک فیصد لوگ پچاس فیصد سے بڑھ کر دنیا کی نناوے فیصد دولت پر قابض ہوجائیں گے ۔اسکے علاوہ باٹم ہاف کی پچاس فیصد دولت بھی صرف پچاسی ارب پتیوں کے ہاتھوں میں ہے۔یعنی صرف پچاسی لوگ تین ار ب لو گوں کی مجموعی دولت پر قابض ہیں۔ ظالمانہ بات یہ ہے کہ ان حالات میں بھی درمیانے درجے کے لوگ اپنی آمدنی کا ایک سو دس فیصد خرچ کررہے ہیںیوں ادھار لے کر بھی وہ اپنی آمدنی کو ایسے سرمایہ دارانہ نظام میں سرکولیٹ کر رہے ہیں جس نظام کی بدولت وہ روز بروز غریب سے غریب تر ہورہے ہیں۔کارل مارکس اور جوزف سٹکلٹس نے ان حالات میں محنت کش طبقے اور سرمایہ داروں کے درمیان رشتے کو بیگانگی ( alienation) سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے برعکس سرمایہ دار طبقے کی دولت کا بڑا حصہ سرکولیشن کے عمل کا بالکل حصہ نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس اتنی دولت ہے جو ان کے خرچ سے کہیں زیادہ ہے ۔میں یہاں مٹ رومنی کی مثال دوں گا جس کی آمدنی 2010ء میں 21.7ملین ڈالر تھی۔ اگر رومنی اور اس کی بیوی اپنے بہت سارے گھروں میں رہتے ہوئے بھی شہ خرچی کریں توبھی ان کی دولت کا بہت بڑا حصہ منجمد ہو کر رہ جائے گا ۔ لیکن اگر اسی دولت کو پانچ سو لوگوں میں تقسیم کردیں یعنی کہ پانچ سو لوگوں کو نوکریاں دے دیں جس میں ہر ایک کی تنخواہ 43ہزار400ڈالر ہو تو آپ دیکھیں گے کہ سارے کی ساری دولت سرکولیشن کا حصہ بن جائے گی ۔اس سے سماجی ہمواری کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری نظام بھی اپنی روح کے ساتھ باقی رہ سکے گا ۔یہاں میں امریکہ کے سب سے بڑے ا سٹور’’وال مارٹ‘‘ کے مالک کی نوے ارب ڈالرکی دولت کا ذکر ضرور کروں گا ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ کی تیس فیصدغریب آبادی کی مجموعی دولت اس ایک شخص کی دولت کے برابر ہے۔امریکہ میں دولت کے اس غیر فطری ارتکاز کی وجہ سے بہت ساری ریاستوں میں تعلیم اور جیل خانہ جات کا بجٹ برابر ہے ۔ اور تقریبا ہر دس امریکن میں سے ایک جیل ضرور گیا ہے اور ہر سات بچوں میں سے ایک بچے کو غذائی قلت کا سامنا ہے400ملین امریکی ہیلتھ کی انشورنس سے محروم ہیں جس کی وجہ سے بہت بڑے بڑے خاندان صرف اس لئے دیوالیہ ہو گئے ہیں کہ ان کے خاندان میں کسی ایک کو کسی موذی مرض نے گھیر لیا تھا اور وہ اس کا علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے تھے ۔امریکہ میں آج بھی لوگ دوائیاں لینے کے لئے کینیڈا جاتے ہیںجو کہ ایک فلاحی ریاست ہے۔یہاں دی اٹلاٹک کی 28مئی 2014کی رپورٹ چشم کشائی کے لئے کافی ہے جس کے مطابق عورتیں اپنے بل ادا کرنے کے لئے اپنا خون بیچ رہی ہیں
ارسطو کہتے ہیں کہ جب غربت انقلاب پیدا نہیں کرسکتی تو وہ جرائم پیدا کرتی ہے۔یہ دنیا ایک سیارہ ہے اور ہم سب نے ملک کر اسے وراثت میں حاصل کیا ہے اور ہمیں پوری شعوری کوشش کے ذریعے اس سیارے کو امن اور باہمی خوشحالی کی آماجگاہ بنانا ہوگا۔صنعتی ممالک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کی ترقی میں اس طرح حصہ لیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں رکاوٹیں نہ پیدا کی جائیںتاکہ عام آدمی کو صحت اور تعلیم کی مکمل سہو لتیں میسر ہوسکیں۔نیوکلیئر اور دوسرے جنگی ہتھیاروں کا بتدریج خاتمہ کیا جائے ۔سرمائے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے لئے بھی بارڈر زپر آمدورفت آسان کی جائے تاکہ وہ بھی اپنی محنت کا مناسب معاوضہ وصول کرسکیں۔دنیا میں جہاں کہیں بھی تیسری دنیا کی اشرافیہ کے سیکرٹ اکائونٹس ہیں ان میں موجود رقم ان کے اصل ممالک کو واپس کی جائے ۔تاکہ دنیا کے تمام لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ وہ اس سیارے کے برابر کے مالک ہیں۔اس دنیا میں ہم سب مل کر ہی ایک فلاحی تصور کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیںاور انفرادی خوشحالی کے ذریعے سروائیول تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوتایوں شیشے کے گھر میں بیٹھ کر بہت زیادہ وقت تک آسائش کی زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔
ان مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ اور پاکستان دونوں ممالک میں اشرافیہ اور اسپیشل انٹرسٹ گروپ سے چھٹکارہ لازمی ہے ورنہ یہ دولت کی نامناسب تقسیم کبھی بھی ختم نہیں ہوگی یہ اجارہ داری صر ف اور صرف سیاست کے ذریعے ہی ختم کی جاسکتی ہے بشرطیکہ عا م آدمی جو کہ ان سماجی مسائل کا شکار ہے اور اپنی دو وقت کی روٹی خود کما کر کھاتا ہے وہ عوامی شعوری ووٹ کے ذریعے اسمبلی میں پہنچے۔صاف ظاہر ہے کہ اس سماجی شعور کے ارتقا میں دانشوروں اور مفکرین کا بہت اہم رول ہے جس کا عملی مظاہرہ انہوں نے پندرہویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک یورپ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے کیا۔فیض صاحب نے کیا خوب کہا تھا!
’’کہ شاعروں اور دانشوروں کو مشاہدے ہی کی نہیں بلکہ مجاہدے کی بھی ضرورت ہے‘‘صاف ظاہر ہے سماج کے سب سے آگاہ طبقے پر ہی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
ہاں جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجے
ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے

تازہ ترین