• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے اثاثہ جات کیس میں راولپنڈی کی احتساب عدالت سے بریت کے حالیہ فیصلے کو گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بنچ میں چیلنج کرکے بلاشبہ بہت سے حلقوں میں پائے جانے والے اس تاثر کے ازالے کا بندوبست کیا ہے کہ اس معاملے میں حقائق احتساب عدالت میں پوری طرح سامنے نہیں آسکے۔نیب کی اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کرپشن کے اس ریفرنس میں بائیس ہزار مصدقہ دستاویزات شامل کی گئی تھیں،لیکن ان ٹھوس شواہد کو نظر انداز کرکے بریت کی درخواست کو منظور کیا گیا جو خلاف قانون ہے۔اپیل میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کی جانب سے اس ریفرنس میں ابھی ضروری شہادتیں قلم بند کرائی جانی تھیں لیکن اس کے بغیر ہی سرسری سماعت کے بعد عجلت میں فیصلہ سنادیا گیا جو میرٹ کے مطابق نہیں۔اپیل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ احتساب عدالت نے جن دستاویزات کو فوٹو کاپی قرار دے کر مسترد کیا ہے وہ نیب کے گواہوں اور متعلقہ ذمہ دار افراد سے تصدیق شدہ ہیں۔قومی احتساب بیورو کے مطابق اس کے پاس آصف زرداری کی آف شور کمپنیوں، سرے محل اور بیرون ملک بینک اکاؤنٹس سے متعلق دستاویزات موجود ہیں۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ کیس میں جتنا مواد باہر سے دستیاب ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آصف زرداری اور ان کا خاندان متعددآف شور کمپنیوں کا مالک ہے جبکہ سرے محل اور مرزا شوگر مل سے متعلق ریکارڈ بھی موجود ہے لہٰذا ہائی کورٹ احتساب عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر قانون کے مطابق اس ریفرنس کا فیصلہ کرے۔ اگر نیب کے یہ دعوے درست ہیں، آصف زرداری اور ان کے خاندان کی کرپشن کے حوالے سے اس کے پاس واقعی مصدقہ اور ٹھوس شواہد موجود ہیں تو احتساب عدالت میں ان شواہد کا نظر انداز کیا جانا واقعتاً حیرت انگیز ہے۔ اس فیصلے کے خلاف نیب کی اپیل کے بعد توقع ہے کہ بالاتر عدالت میں استغاثہ کی تمام شکایتوں کا ازالہ ہوسکے گا جبکہ ملزم کو بھی اپنی صفائی اور دفاع کے پورے مواقع حاصل ہوں گے، انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا اور طویل مدت سے بوجوہ مؤخر ہونے والے اس مقدمے کا مکمل طور پر میرٹ پر مبنی فیصلہ کیا جائے گا۔اس کے نتیجے میں اس تاثر کا ازالہ بھی ہوسکے گا کہ ملک میں محض ایک سابق حکمراںخاندان احتساب کا ہدف ہے۔ لیکن ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کے لیے محض سیاستدانوں کا محاسبہ کافی نہیں، اس دائرے کو تمام ریاستی اداروں اور تمام شعبہ ہائے زندگی تک وسیع کرنا ضروری ہے۔ہمارے قومی وسائل کے بہت بڑے حصے کا مقتدر طبقات کی مالی بدعنوانیوں اور لوٹ کھسوٹ کی نذر ہوجانا ایک معروف حقیقت ہے۔ مدت دراز سے پوری سرکاری مشینری اس کا شکار ہے۔ کوئی ریاستی ادارہ، کوئی وزرات اور کوئی محکمہ کرپشن کی لعنت سے محفوظ نہیں۔ اربوں کے مالی گھپلوں کی خبریں آئے دن ذرائع ابلاغ کے توسط سے قوم کے سامنے آتی رہتی ہیں۔یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے محض سیاسی شخصیات نہیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے بااثر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس لعنت میں ملوث چلی آرہی ہے۔مشرف دور میں قومی احتساب بیورو جسے مختصراً نیب کہا جاتا ہے، ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کے نام پر قائم کیا گیا تھا لیکن عملاً اسے سیاستدانوں کو مشرف حکومت کی حمایت پر آمادہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، پھر مالی بدعنوانیوں میں پکڑے جانے والے افراد سے پلی بارگین کے طریقے نے نیب کو عملاً کرپشن کے فروغ کا ادارہ بنادیا۔ لہٰذا نیب کے حقیقی مقاصد کی تکمیل کی خاطر مناسب قانون سازی کرکے اس کی خامیوں کو دور کیا جانا چاہیے اور ضروری ہو تو ججوں، جنرلوں، تاجروں، صنعت کاروں اور صحافیوں سمیت سب کے یکساں، بلاامتیاز، بے لاگ اور شفاف احتساب کے لیے ایک نیا اور بالاتر ادارہ تشکیل دیا جانا چاہیے تاکہ کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب حقیقت بن سکے۔

تازہ ترین