• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرما گرم خبر یہ ہے کہ شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کا دھماکہ کرلیا ہے۔ اس میں تعجب کی بات نہیں اگر قیادت غیّور ہو تو غریب ملک بھی بہت کچھ کرسکتا ہے۔ آپ ہمارے ملک کو ہی دیکھ لیجئے، قیادت محب وطن تھی ہم غریب تھے مگر ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اب آپ توقع رکھیں کہ ہندوستان بھی (امریکہ کی شہہ پر) اسی قسم کا دھماکہ کرے گا۔ شروع سے ہی امریکی پالیسی یہ رہی ہے کہ ہندوستان کو سپر پاور کا درجہ مل جائے۔ یہ سلسلہ صدر کینیڈی کے دور سے شروع ہوا تھا۔ نہرو پڑھا لکھا منجھا ہوا سیاستداں تھا اس نے پوری دنیا سے دوستی کرلی تھی، ناصر، ٹیٹو، سوئیکارنو، اینکروما وغیرہ اس کے نہایت قریبی دوست تھے۔ ہندوستان کی روس سے دوستی کے نتیجے میں ہندوستان کو میزائل ٹیکنالوجی اور نیوکلیر ٹیکنالوجی ملی۔ ہمارے اہل اقتدار عیاشی میں لگے رہے۔ اگر مرحوم بھٹو صاحب میرا مشورہ نہ مانتے تو آپ کا جو حال ہوتا وہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کے ساتھ جو سلوک کیا اس میں بھی مغربی ممالک کا بڑا ہاتھ تھا بلکہ اب تو یہ بات نکل چلی ہے کہ لیاقت علی خان کو مروانے میں بھی ان ہی ممالک کا ہاتھ تھا۔ میرے اور میرے ساتھیوں کے ساتھ جو ’حسن سلوک ‘کیا گیا اس میں بھی امریکی اشارے پر ایک ڈکٹیٹر نے منفی کردار ادا کیا۔ پچھلے دنوں مغربی ٹی وی چینلز نے شمالی کوریا کی تصاویر دکھائیں اور ان کے لیڈروں کو ایک ہائیڈروجن بم کا معائنہ کرتے دکھایا۔ بعد میں مغربی ماہرین نے تصدیق کی کہ شمالی کوریا نے واقعی ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا ہے جس کی قوّت تقریباً 60 میگاٹن ٹی این ٹی تھی۔ یہ اتنا طاقتور بم ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے شہر کو صفحہ ہستی سے مٹاسکتا ہے۔ یہی نہیں انھوں نے اعلیٰ سب میرین (آبدوزیں) اور بین الاقوامی بیلسٹک میزائیل بھی بنا لئے ہیں۔ غریب ملک ہے مگر غیرت مند قوم ہے۔ تقریباً 22,20 سال پیشتر ایک سفارتی فنکشن میں جنوبی کوریا کے سفیر سے میری ملاقات ہوئی اس نے درخواست کی کہ کیا وہ پانچ منٹ بات کرسکتا ہے۔ اس نے کہا کہ انھیں علم ہے کہ ہمارے شمالی کوریا سے اچھے تعلقات ہیں اور ہم آتے جاتے رہتے ہیں اور یہ تعلقات بھٹو صاحب نے قائم کئے تھے آپ اپنے تاثرات سے آگاہ کردیں۔ میں نے کہا کہ آپ کے سامنے جرمنی، یمن، وغیرہ کی مثال موجود ہے۔ جرمنی کے معاملےمیں امریکہ نے پوری کوشش کی کہ مشرقی جرمنی کو دشمن نمبر ایک بنا دے اور تعلقات اتنے خراب کردے تاکہ یہ کبھی اکھٹے نہ ہو پائیں، مغربی جرمنی کے حکمراں بہت سمجھدار تھے انھوں نے نہایت نرم رویہ رکھا اور بہت معاشی و مالی امداد دی نتیجہ یہ ہوا کہ جب وقت آیا وہ ایک ہوگئے اور اب جرمنی امریکہ کا غلام نہیں ہے آزادانہ پالیسی پر عمل کرتا ہے اس کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل خود سابق مشرقی جرمنی سے تعلق رکھتی ہیں۔ برلن کی دیوار بننے کے 12 دن بعد جرمنی پہنچ گیا تھا برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے، حالات کشیدہ تھے۔ دشمنی کو خوب ہوا دی جارہی تھی۔ ہم لوگ بہ آسانی مشرقی برلن جاسکتے تھے اور تعلیمی کتب بہت سستی خرید کر لاتے تھے۔
میں نے ان کو بتلایا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ آپ ایک ہوجائیں۔ آپ کی معاشی ترقی اور شمالی کوریا کی دفاعی صلاحیت مل کر ایک بہت بڑی قوّت بن جائینگے اور جاپان اور امریکہ کے ساتھیوں کے لئے ایک خطرہ بن جائینگے اس لئے انھوں نے آپ کو جاپان کو اورشمالی کوریا کو ایک حوّا بنا کر پیش کردیا ہے۔آپ یکجا ہوجائیں دونوں جرمنی (مشرقی، مغربی) کی طرح، فرانس کی طرح طاقتور ہوجائینگے۔ آپ نے کبھی سوچا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جہاں جہاں امریکی فوجی تھے وہیں موجود ہیں آجتک واپس نہیں گئے اور جہاں موجود ہیں وہاں اندرونی سازشوں کا منبع ہیں۔
لوگ شاید نا مانیں مگر شمالی کوریا کی طاقت چین اور روس کو بھی درپردہ پسند ہے۔ امریکیوں نے جنوبی کوریا اور جاپان میں ایٹم بم رکھے ہیں اور اس کا توڑ ایٹمی شمالی کوریا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شمالی کوریا کے سائنسدان اور انجینئرنہایت قابل ہیں، ان کی اکثریت نے روس اور چین کی اعلیٰ یونیورسٹیوں اور اداروں میں تعلیم و تجربہ حاصل کیا ہے، نہایت محنتی ہیں۔ اگر ان کے دارلحکومت میں قائم انڈسٹریل نمائش دیکھیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائینگی۔ جب ہم وہاں گئے تھے تواس وقت انھوں نے نہایت اعلیٰ ایٹم بم بنا لئے تھے اور ان کیلئے ہائیڈروجن بم بنانا زیادہ مشکل کام نہ تھا۔
دیکھئے ہائیڈروجن بم بنانے کے لئے ایٹم بم کی ضرورت ہے جو ایک اسٹارٹر کا کام کرتا ہے۔ ایٹم بم آپ افزودہ یورینیم یا پلوٹونیم سے بنا سکتے ہیں اصل چیز یہی مادہ ہے باقی تو قورمہ کی طرح گرم مصالحہ، دھنیا، پیاز وغیرہ ہے جو عام ممالک بنا سکتے ہیں اور کتابوں میں اس کی تفصیل ہے۔ یورینیم ایٹم بم کو ترجیح دی جاتی ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ تابکاری نہیں چھوڑتا اور خطرہ پیدا نہیں کرسکتا جبکہ پلوٹونیم کے بم میں یہ خطرہ موجود ہوتا ہے۔ آپ نیٹ پر، کتابوں میں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنانے کی ترکیبیں اور نقشے وغیرہ دیکھ سکتے ہیں۔ پھر بھی کتابوں کی کہانی اور اصل کام میں بہت فرق ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ گھاس کھا کر ایٹم بم بنانا۔ گھاس کھا کر آپ دیر یا بدیر قبرستان کا سفر شروع کرتے ہیں۔ ایٹم بم بنانے کے لئے تمام اعلیٰ سہولتوں اور بھرے پیٹ ضروری ہیں۔ ہائیڈروجن بم کے لئے ہائیڈروجن کی ایک قسم ڈیوٹیر یم اور ہائیڈروجن کی ایک اور قسم ٹریٹیم ہے۔ بعد میں ایک دھات لیتھیم6اور نیوٹران کے ملنے سے ایک ری ایکشن ہوتا ہے وہ اس طرح کہ لیتھیم سے نیوٹران کو دور نہیں ہونا پڑتا اور نہ ہی اونچے درجے کی حرارت چاہئے۔ جب ایٹم بم پھٹتا ہے تو ٹریٹیم اور ہیلیم مل جاتے ہیں اور نہایت بڑی قوّت پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے چونکہ یورینیم ایٹم بم بنا لیا تھا، ہمارے لئے ہائیڈروجن بم بنانا آسان تھا مگر اس کے لئے ہمیں جناب ذوالفقار علی بھٹو جیسا مرد مجاہد چاہئے تھا جو یہ فیصلہ کردیتا اور ہمیں گرین سگنل دیدیتا۔ وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ میں نے یہ تجویز پیش کی تھی، 2000 کے اوائل میں، کہ مجھے صرف 50 ملین ڈالر دے دیں تو میں لمبی مار کی یعنی بین الاقوامی بیلسٹک میزائل بنا کر سپارکو کا تیار کردہ یا چین سے خریدا سیٹیلائٹ مدار میں چھوڑ سکتا تھا اور یہ لمبی مار کی میزائل پورے ہندوستان کو اپنی مار میں لے لیتے۔ ہائیڈروجن بنانے کی ذمہ داری ہمیں دیتے یا اٹامک انرجی کمیشن کو ایٹم بم کی موجودگی میں دونوں بہ آسانی کرسکتے تھے۔
(نوٹ) عید الاضحی کے موقع پر بہت سے دوست احباب اور چاہنے والوں کے پیغامات موصول ہوئے جن کے لئے میں ان تمام حضرات کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو خوش و خرم رکھے اور صحت و تندرستی عطا فرمائے۔ آمین

تازہ ترین