• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں ظاہر کیے جانے والے عزائم بلاشبہ ترقی کی نئی راہیں کشادہ کرنے کا باعث ثابت ہوسکتے ہیں بشرطیکہ اس سمت میں مسلسل اور منظم پیش رفت کو یقینی بنایا جائے۔سربراہی اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق تمام رکن ملکوں نے جدید سائنس وٹیکنالوجی کے شعبوں میں مشترکہ تحقیقی منصوبے شروع کرنے، اجتماعی صلاحیتوں اور تعلیمی بجٹ میں اضافے،غربت کے خاتمے، او آئی سی2025ء اور2030ء کے ترقیاتی منصوبوں کے اہداف کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے باہمی کوششوں کو مربوط کرنے پر اتفاق کیا۔پاکستان کی جانب سے صدر ممنون حسین نے اسلامی دنیا کے تحقیق کاروں اور طلباء کی تعلیم وتربیت کیلئے ایک پرکشش پیکیج کا اعلان بھی کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بے پناہ قدرتی وسائل اور باصلاحیت افرادی قوت سے مالا مال ہونے کے باوجود بیشتر مسلم ملکوں میں تعلیم کے فروغ اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جو آج کی دنیا میں مسلمانوں کی پسماندگی کا بنیادی سبب ہے۔ تقریباً نصف صدی پیشتر قائم ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم کے مقاصد میں اگرچہ تعلیم و تحقیق کا فروغ پہلے دن سے شامل ہے لیکن اس سمت میں کوئی قابل ذکر عملی پیش رفت نظر نہیں آتی ۔ یہ تنظیم جو اپنے ابتدائی عشروں میں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی مسلم ملکوں کے باہمی اختلافات کے باعث عملاً بے اثر ہوکر رہ گئی اور فلسطین و کشمیر جیسے عالم اسلام کے مشترکہ مسائل میں بھی کوئی قابل لحاظ کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ، حتیٰ کہ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے جاری قتل عام پر بھی جب غیرمسلم مغربی دنیا بھی چیخ اٹھی تب اسلامی تعاون تنظیم نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے فیصلے امید افزاء ہیں اور انہیں کامیابی سے آگے بڑھانے کیلئے مسلم ملکوں کے اختلافات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین