• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا پر آج کل ایک تصویر ’’وائرل‘‘ ہو رہی ہے۔ یہ تصویر ان رنگ برنگے ٹن کے ڈبوں کی ہے جو شاید کسی ٹوکرے جیسی چیز میں اوپر نیچے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ سعادت حسن منٹو کے خالی ڈبے نہیں ہیں بلکہ مشروبات کے ڈبوں جیسے ہیں۔ جیسے کسی کولا کے ٹن۔ یا پھر یورپ اور امریکہ میں کھانے پینے کی چیزوں کے ٹن۔ ان ڈبوں پر چینی زبان میں کچھ لکھا ہوا ہے اور یہ ٹن اس اسٹور میں رکھے ہیں جو اسلام آباد میں چینی باشندوں نے کھولا ہے۔ اب کوئی چینی زبان جانتا ہو تو وہی بتا سکتا ہے کہ ان پر کیا لکھا ہے۔ اسی لئے اب یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ان ڈبوں میں کیا ہے؟ کیونکہ چین کے لوگ تو سب کچھ کھا جاتے ہیں۔ اس پر ہمیں اپنا چین کا پہلا سفر یاد آ گیا۔ یہ1974 کا نومبر تھا۔ مائوزے تنگ (اس وقت ہم مائوزے تنگ کا یہی تلفظ کرتے تھے) کے ثقافتی انقلاب کے آخری دن تھے۔ پاکستان میں بھٹو صاحب کا زمانہ تھا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خاں کی قیادت میں ایک خاصہ بھاری بھرکم وفد چین گیا تھا۔ ہمیں اوروں سے تو کوئی واسطہ نہیں تھا، اصل میں ہمارے ہم سفر تو خاصے نام و نمود رکھنے والے پانچ آدمی تھے۔ احمد فراز، ڈاکٹر خالد سعید بٹ (جو اس وقت پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے سربراہ تھے)، ٹی وی والے طارق عزیز، فیض صاحب کے بارے میں اپنی یادوں پر مشتمل کتاب ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘‘ لکھنے والے ڈاکٹر ایوب مرزا اور ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے عالم فاضل صاحبزادے رافع عالم۔ دن بھر کی سرکاری مصروفیات اور شام کے آخری کھانے کے بعد (اب یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ دنیا بھر میں رات کا کھانا شام چھ بجے کھا لیا جاتا ہے) ہماری چوکڑی جمتی تھی خالد سعید بٹ کے کمرے میں۔ اس زمانے میں چین میں کھانے پینے کی چیزوں کے جو ڈبے یا ٹن تھے ان پر صرف چینی زبان میں ہی لکھا ہوتا تھا، انگریزی میں نہیں۔ ہر شام طارق عزیز ہوٹل کی شاپ میں جاتے اور جو سب سے زیادہ خوش رنگ اور خوش نما ڈبہ یا ٹن انہیں نظر آتا وہ خرید لاتے۔ اس کے بعد کیا ہوتا؟ یہ ہم آپ کو نہیں بتا سکتے۔ تو صاحب، وہی ڈبے یا ٹن اب پاکستان بھی پہنچ گئے ہیں۔ ظاہر ہے1974 کے ٹن بھی ہمارے لئے نہیں ہوتے تھے اور یہ آج کے ٹن بھی ہمارے لئے نہیں ہیں۔ یہ چینی باشندوں کے اپنے لئے ہیں۔ ہم کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟
دیکھئے صاحب، چین آئے گا تو یہ لوازمات بھی آئیں گے۔ اور چین آئے گا نہیں، وہ تو آ چکا ہے۔ صرف اسلام آباد ہی نہیں پاکستان کے ہر بڑے شہر میں چینی مرد اور چینی عورتیں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے سامنے نہر کے کنارے ان کا قلعہ نما قونصلیٹ بن گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں نہر کے ساتھ کی سڑک بند ہو چکی ہے۔ ڈیفنس میں ان کے ہوسٹل بن گئے ہیں۔ بڑے شاپنگ مالز پر وہ خریداری کرتے ملتے ہیں۔ اب ’’برکس‘‘ کانفرنس میں ہندوستان اور روس کے ساتھ مل کر چین ہمارے بارے میں کچھ بھی کہے، خواہ وہ ہمارے اوپر کتنی ہی اینٹیں برسائے، مگر بہرحال وہ ہمارا دوست ہے۔ اقتصادی راہداری کے بارے میں ہمارے ڈاکٹر قیصر بنگالی اور خرم حسین خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔ اس سے دودھ اور شہد کی نہریں بہیں نہ بہیں ہمارے مزاج ضرور بدل جائیں گے اور ہمیں یہی چاہیے۔
کسی ملک، کسی معاشرے اور اس معاشرے میں رہنے سہنے والوں کے مزاج اور ان کی پسند اور ناپسند کو اگر سمجھنا ہو تو اس معاشرے کا ادب، بالخصوص اس کی داستانیں اور اس کے افسانے اور ناول پڑھنا ضروری ہیں۔ مغربی معاشرے کو ہم نے اس کے ناولوں اور افسانوں سے ہی سمجھا۔ اب چین ہمارے ہاں آ گیا ہے تو ہمیں اس معاشرے کے اندرون میں داخل ہونے کے لئے اس کے افسانے اور اس کے ناول پڑھنا ہوں گے۔ آج کا چینی وہ نہیں ہے جسے ہم دندان ساز یا جوتے بنانے والے کے طور پر جانتے تھے۔ آج کا چینی تجارتی، صنعتی اور سائنسی میدان میں زقندیں بھرنے والا چینی ہے۔ اپنے مزاج اور اپنی نفسیاتی کیفیت میں وہ مستقبل کا انسان ہے۔ اسی حقیقت کو جاننے کے لئے ہمیں اس کے نئے ادب سے رجوع کرنا ہو گا۔ اکادمی ادبیات نے اچھا کیا کہ ’’معاصر چینی افسانے‘‘ کے نام سے نئے چین کے بیس افسانہ نگاروں کے افسانوں کا اردو ترجمہ چھاپ دیا ہے۔ ہم اس سے خوش بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ اب ہے تو یہ نیا چین اور اس نئے چین کے افسانے، مگر ’’بد دعا‘‘ نام کا افسانہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اتنے سوشلسٹ انقلابوں کے بعد بھی وہاں توہم پرستی ابھی تک موجود ہے۔ ایک عورت کا مرغا غائب ہو جاتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس کی پڑوسن نے وہ مرغا چرایا ہے۔ پڑوسن قسمیں کھاتی ہے کہ اس نے نہیں چرایا۔ مگر وہ عورت اصرار کرتی ہے اور بد دعا دیتی ہے ’’اگر تم نے مرغا چرایا ہے تو تمہارا بیٹا مر جائے اور اگر نہیں چرایا تو میرا بیٹا مر جائے‘‘۔ آخر اس عورت کا مرغا واپس آ جاتا ہے اور اس کا اپنا بیٹا مر جاتا ہے۔ تو کیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ انسان کتنا ہی ریڈیکل انقلابی ہو جائے، توہمات اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے؟ اس سے بہرحال یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ کم سے کم اس معاملے میں چینی ہمارے ہی بھائی ہیں۔
اب چلتے چلتے ایک بار پھر کچھ لفظوں اور ان کے ترجموں کی بات ہو جائے۔ پچھلی مرتبہ ہم نے انگریزی لفظ کرپشن کے متبادل اردو لفظ کے بارے میں لکھا تھا۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے فیصلہ کر دیا کہ اردو میں کرپشن کے لئے کوئی لفظ نہیں ہے۔ اچھا، تو اب یہ بھی بتا دیجئے کہ ہم نے اس کالم کے شروع میں جو انگریزی لفظ ’’وائرل‘‘ لکھا ہے تو کیا اس کے لئے اردو میں کوئی لفظ موجود ہے؟ ہم کہتے ہیں فلاں چیز وائرل ہو گئی۔ تو اردو میں ہم اسے کس طرح کہیں گے؟ فلاں چیز چل نکلی؟ مگر اس ’’چل نکلی‘‘ میں وہ زور نہیں ہے جو ’’وائرل‘‘ میں ہے۔ وائرل، یعنی بیماری پھیل گئی۔ بیماری کے جراثیم پھیل گئے؟ لیکن سوشل میڈیا پر جو بات یا جو چیز وائرل ہوتی ہے وہ ضروری تو نہیں کہ برے معنی میں ہی ہو۔ اچھے معنی میں بھی ہو سکتی ہے۔ تو پھر اس کا متبادل اردو لفظ کیا ہے؟ اور ہاں، یہ جو کھانے پینے کی چیزوں کے ’’ٹن‘‘ ہوتے ہیں انہیں اردو میں کیا کہا جاتا ہے؟ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اتوار کے ’’دی نیوز‘‘ اخبار میں ترجمے پر خاصہ فکر انگیز مضمون لکھا ہے۔ کیا آصف فرخی کے ساتھ وہ بھی اس بارے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں؟ ہمارے ہاں ٹین کنستر کچھ اور ہی چیز ہوتے ہیں۔

تازہ ترین