• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے لندن سے ویڈیو کانفرنس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ اس سال مکمل ہو جائے گا اوراس کا افتتاح 25دسمبر کو ہو گا۔شہباز شریف کا یہ کہنا تھا کہ منصوبے کی تکمیل سے گردے اور جگر کے مریضوں کا علاج مفت ہو گا اور یہ منصوبہ شفافیت اور اعلیٰ معیار کا ہو گا ۔منصوبے کی شفافیت کے بارے میں وقت ہی بتائے گاکہ اس منصوبے کا فرد واحد اورکرتا دھرتا کس حد تک دعوے پر پورا اترتا ہے۔ شفافیت فنڈز اور اسٹاف کی بھرتی دونوں میں ہونی چاہئے۔اب تک اس منصوبے کے لئے 20ارب روپے رکھے گئے ہیں اور اب سننے میں آ رہا ہے کہ مزید فنڈز رکھے جائیں گے۔اس اسپتال سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ یہ بھی جلد ایک روایتی سرکاری اسپتال بن جائے گا۔ ہمارے ہا ں بعض حکمراںاور منصوبہ ساز ایسی باتیں کرتے ہیں۔ جن کو سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ مثلاً آپ نے لاہور میں 20ارب کا مہنگا ترین ایک بڑا اسپتال بنانا شروع کر دیا ۔ پاکستان میں جہاں ہیپاٹائٹس بی اور سی انتہائی شدت سے پھیل رہا ہو وہاںاس کی روک تھام میں اکیلا یہ اسپتال کیا کرے گا؟ یہ ایک پی کے ایل آئی کیا آپ اس طرح کے بے شک پچاس پی کے ایل آئی بنا دیںتو مرض کنٹرول نہیں ہو گا کیونکہ جس طرح مریض آ رہے ہیں کبھی بھی یہ تمام وسائل اور سہولتیں پور ی نہیں پڑ سکتیں۔پھر کبھی آپ نے سوچا ہے کہ گردوں اور جگر کی پیوندکاری کرانے والے مریض کو عمر بھر ادویات لینی ہوتی ہیں۔جن کا ماہانہ خرچ کم از کم تیس سے چالیس ہزار روپے ہے اور اگر مریض مناسب ادویات اور ریگولر چیک اپ نہ کروائے تو اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ گردے و جگر کی پیوند کاری کروانے والے مریض کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ زندگی اور موت بے شک خالق کائنات کے ہاتھ میں ہے لیکن بیماریوں سے بچائو کی منصوبہ بندی کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ اگراسپتال بنانے سے زیادہ بیماری کی روک تھام پر زور دیا جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔
اگر 20ارب روپے سے پورے پنجاب اور پاکستان کے لوگوں اور ہر پیدا ہونے والے بچے کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین لازمی طور پر لگا دی جائے تو بڑی حد تک جگر کے امراض (جن کا تعلق ہیپا ٹائٹس بی سے ہو) ختم ہو جائیں گے۔ مگر شاید اسی طرح وہ مخصوص مفادات جو اسپتالوں کے نظام سے منسلک ڈاکٹروں، پروجیکٹ ڈائریکٹرز صاحبان اور ایم ایس صاحبان کے ہوتے ہیں پورے نہیں ہوں گے۔ ادویات کی خریداری مشینوں کی مینٹی ننس مشینوں کی خریداری لیبارٹریوں کے ٹیسٹ کے لئے آنے والے کیمیکلز کا ٹھیکہ ، صفائی کے طریقے اور کئی طرح کے کام جن سے روٹی پانی اور ڈیفنس میں بنگلے بن جاتے ہیں بند ہو جائیں گے۔ لوگ بیمار ہوتے رہیں گے آپ کی مرغن غذائیں (اب روٹی پانی پرانا محاورہ ہوگیا ہے) اور دوسرے ممالک کی سیریں ہوتی رہیں گی پھر ہر ایم ایس ڈیفنس میں گھر کیسے بنائے گا ؟جبکہ دیگر چھوٹے شہروں کے سرکاری اسپتالوں کے ایم ایس صاحبان زرعی رقبے کیسے خریدسکیں گے؟ لہٰذا شفافیت تو اب ایک مذاق بن چکی ہے۔کیا ڈ ی جی ایکسائز اپنے بچوں کو بیرون ملک پڑھا سکتا ہے۔ کیا 19گریڈ کا افسر اپنے بچے یو کے میں پڑھا سکتا ہے۔ کسی شعبے میں اب شفافیت نہیں رہی ۔ ہر شعبے میں جھوٹ اور بدعنوانی ہے۔
سجن رے جھوٹ مت بولو
خدا کے پاس جانا ہے
نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے
(اب تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ، )
نہ قیمتی گاڑی ہے نہ پروٹوکول ہے
وہاں پیدل ہی جانا ہے
تمہارے محل چوبارے یہیں رہ جائیں گے سارے
اکڑ کس بات کی ہے پیارے
سر پھر بھی جھکانا ہے
آج ہماری سیاست میں ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے یہ عوام کی خا م خیالی ہے کہ اس ملک کے لوگوں کے حالات بدلیں گے۔ حالات فقط امیروں اور وزیروں کے بدلتے ہیں۔
غریب کے حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔ ویسے بڑی عجیب بات ہے کہ ہمارے امیر اور وزیر بھی کبھی بہت غریب تھے اوریہ غریب بڑے ظالم ہوتے ہیں اس کی تفصیل پھر کبھی آپ کو بتائیں گے۔ آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طر ف ،اس وقت گردوں کے مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے لیکن آج تک کسی حکومت نے پاکستان کے عوام کو شعور دینے کی کوشش نہیں کی کہ ارے بھائی سال میں کم از کم ایک دو مرتبہ اپنے گردوں کا ٹیسٹ ہی کرالیا کرو۔ چھوٹے میاں صاحب بادشاہ ہیں شاہانہ باتیں کرتے ہیں اس ملک کے ایک نہیں کئی کروڑ افراد کو یہ علم نہیں کہ کلینیکل ٹیسٹ کیا ہوتے ہیں قیمتی علاج گاہیں نہیں بلکہ لوگوں کو بیماریوں سے بچائو کے بارے میں تعلیم اور شعور دینے کی ضرورت ہے آپ صحت کے حوالے سے بڑی بڑی میٹنگیں کرتے ہیں۔جہاں خوبصورت پریزنٹیشن انگریزی میں تیار کرکے آپ کو لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کی فارغ التحصیل لڑکیاں متاثر کر دیتی ہیں۔ چاہئے جتنی مرضی برطانیہ میں ہیلتھ روڈ شو کر لیں نتائج پھر بھی برآمد نہیں ہوں گے۔آپ 20سے زیادہ افراد کو برطانیہ ہیلتھ روڈ شو کیلئے لے کر گئے ہیں سوچیں غریب ملک کے کروڑوں روپے اس پر لگ گئے اور مطلوبہ نتائج پھر بھی برآمد نہیں ہوں گے۔ اس پر پھر آئندہ بات کریںگے۔
ہم نے اب تک جتنی میٹنگوں میں شرکت کی وہاں کبھی بھی عوام کے شعور اور آگاہی پر بات نہیں ہوئی۔ آگاہی صرف اشتہارات دے کر پیدا نہیں ہوتی ۔ ارباب اختیار کو علماء کو بھی اس سلسلے میں تربیت دینی چاہئے تاکہ وہ اپنے خطبات میں لوگوں کو ہیپاٹائٹس کے بارے میں آگاہ کریں۔ اور عوام کو بتائیں کہ ہیپا ٹائٹس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ اسی طرح گردوں کی بیماریوں کے بارے میں عوام کو آگاہی دی جائے۔ سال میں گردوں کے ایک یا دو مرتبہ ٹیسٹ بھی کروائیں۔جب تک علماکو خود ان بیماریوں کے بارے میں آگاہی نہیں ہو گی وہ کس طرح عوام کو اس بارے میں بتائیں گے؟
آپ دس برس سے غیر معیاری ادویات بنانے والوں کو انسانیت کا دشمن اور ان کی جگہ جیل کہہ چکے ہیں پھر کیا وجہ ہے؟ کہ جعلی ادویات کا کاروبار عروج پر ہے۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر محمد اجمل خاں اب تک تین ہزار جعلی ڈاکٹروں یعنی عطائیوں کے خلاف کارروائی کر چکے ہیں۔ مگر عدالتیں انہیں ضمانت پر رہا کر دیتی ہیں۔ جب ایک بات طے ہو گئی ہے کہ عطائی حضرات لوگوں کی زندگیوں اور صحت سے کھیل رہے ہیں پھر اس میں دو رائے کیوں؟ پھر اس میں ضمانت کیوں؟ دوسری جانب پنجاب فوڈ اتھارٹی کے سربراہ نورالامین مینگل ہر روز چھاپے مار کر ناقص غذا تیار کرنے والی کئی فیکٹریوں کو بند کر چکے ہیں مگر وہ لوگ پھر کسی نئے شہر / گائوں میں نئے نام سے کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔ آخر کب تک پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن چھاپے مارتا رہے گا؟ پچھلے برس پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے کئی سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں سوڈومنہاس ایک جراثیم کے بارے میں بتایا کہ جو اسپتالوں کی پانی کی ٹنکیوں میں موجود ہے۔ کامیاب آپریشن کے باوجود اس سے انفیکشن ہو جاتا ہے اور مریض مر جاتا ہے۔ اس کارروائی کے راستے میں کئی رکاوٹیں آگئیں ہیں جن کا ہم کیا ذکر کریں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین