• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعلیٰ شہباز شریف کی صوبہ پنجاب کیلئے بحیثیت وزیراعلیٰ خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ باوجود اس کے کہ پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے والے خفیہ ہاتھ اب ان پر بھی وار کرنے کو تیار ہیں اگر ہم ماضی کی طرف دیکھیں تو پاکستانی سیاست میں خفیہ ہاتھ ہمیشہ سے کارفرما رہا ہے اور اسے انتہائی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار پر چڑھنے سے لے کر نواز شریف کی حالیہ نااہلی تک خفیہ ہاتھ کے ملوث ہونے کا چرچا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورحکومت میں وزیر خارجہ تھے کہا جاتا ہے کہ ان کو وزیر خارجہ کے منصب پر لانا پھر اس منصب سے مستعفی ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی سیاسی جماعت کا بننا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس جماعت کا ملک گیر پذیرائی حاصل کرنا اور اس کے بعد ایوب خان کا اپنی صدارت کے عہدے سے استعفیٰ، 70ء کے عام انتخابات میں مغربی یعنی موجودہ پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی کامیابی جبکہ مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کی کامیابی کے پیچھے بھی کہا جاتا ہے کہ خفیہ ہاتھ تھا۔ اس الیکشن کے بعد پاکستان کا دولخت ہونا اور پھر 77ء کے مارشل لاء کے بعد جنرل ضیاء کا اقتدار سنبھالنا اور بھٹو کی پھانسی کے پیچھے بھی اسی ہاتھ کا ذکر خیر ہوتا رہا ہے ۔83ء میں نواز شریف کا سیاست میں آنا اور 88ء میں پاکستان مسلم لیگ کا سربراہ بننا بھی اسی ہاتھ کا مرہون منت رہا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا وجود میں آنا بھی خفیہ ہاتھ کا کارنامہ تھا جس کے باعث 90ء کے الیکشن میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو شکست ہوئی۔ 93ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کو ملا کر اسلامک فرنٹ بنایا گیا اس کے پیچھے بھی خفیہ ہاتھ ہی کام کررہا تھا۔ اس فرنٹ کے باعث 93ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف مسلم لیگ کو شکست ہوئی اورمحترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر وزیراعظم پاکستان بنیں۔ 97ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے نواز شریف کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے پس پردہ بھی خفیہ ہاتھ کا عمل دخل بتایا جاتا رہا۔ اسی طرح 99ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا اور انہیں اٹک جیل میں بند کردیا گیا۔ اس حوالہ سے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ کام بھی خفیہ ہاتھوںنے ہی کیا تھا۔ نواز شریف کے قریبی حلقے ہمیشہ 99ء کے مارشل لاء کے حوالہ سے اپنا موقف دیتے ہیں کہ نواز شریف کو ایٹمی دھماکہ کرکے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی سزا دی گئی تھی۔ دیگر ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ 77ء اور 99ء کے مارشل لاء کے پیچھے خفیہ ہاتھ کا استعمال اس لیے کیا گیا کہ پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں اہم کردار دیا جانا تھا اور یہ کام کوئی جمہوری حکومت نہیں کرسکتی تھی اس لئے ایک آمر کی ضرورت تھی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھی جائے تو اس خفیہ ہاتھ کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بیرونی اور اندرونی دوطرح کے خفیہ ہاتھ ہیں۔ بعض اوقات یہ دونوں خفیہ ہاتھ ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ مواقع پر یہ الگ الگ کام کررہے تھے۔ 2013ء میں مسلم لیگ ن نے جب واضح اکثریت حاصل کی اور میاں نواز شریف نے بطور وزیراعظم عہدہ سنبھالا اور بظاہر ایک جمہوری مثبت انداز میں اقتدار کی منتقلی ہوئی اور ایک جمہوری حکومت نے دوسری جمہوری حکومت کو ملک کی باگ ڈور سونپی تب یہ تبصرے ہورہے تھے کہ خفیہ ہاتھ اب اتنا مضبوط نہیں رہا اور جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے لیکن یہ دعوے ایک سال بعد ہی دم توڑنا شروع ہوگئے جب نواز شریف کی حکومت پر دھاندلی کے الزامات شدت سے لگائے جانے لگے۔ پاکستان کی مضبوط اور بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے نواز شریف حکومت کے خلاف دھاندلی کے مسئلہ پر اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ کہا جاتا ہے اس دھرنے کے پیچھے بھی خفیہ ہاتھ تھا یہ دھرنا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے مطابق وہ نتائج نہ دے سکا جس کی ان کو توقع تھی مگر خفیہ ہاتھ نے اپنے مطلوبہ نتائج شاید حاصل کرلیے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ مطلوبہ نتائج جنرل مشرف کو غداری کے مقدمہ میں ایک محفوظ راستہ دینا اور بیرون ملک بھیجنا تھا۔ اس دھرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر خفیہ ہاتھ کی مضبوطی کا اندازہ ہوا اور نواز حکومت نے اس خفیہ ہاتھ کی اہمیت اور نزاکت کو جانا اور اس حوالے سے اپنی حکومتی پالیسیاں مرتب کیں۔ دھرنے کے بعد نواز حکومت نے ایران اور سعودی عرب تنازع میں بھرپور کردار ادا کرنے کا ارادہ کیا اس حوالہ سے پاکستان کے وزیراعظم اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب اور ایران کے دورے بھی کئے۔ مگر اچانک پانامہ لیکس کا ایک ایسا سلسلہ سامنے آیا جس نے نواز شریف کی مضبوط حکومت کو ایک مرتبہ پھر ہلا کر رکھ دیا اس ایشو پر اپوزیشن نے بھرپور سیاست کی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بڑے بڑے عوامی اجتماع کیے اور آخر کار سپریم کورٹ نے اس کیس کو سننے کا فیصلہ کیا۔ کیس کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ اس فیصلہ کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور دیگر اہم رہنماؤں کا موقف ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے بھی اندرونی اور بیرونی خفیہ ہاتھوں کا گٹھ جوڑ ہے اور یہ خفیہ ہاتھ نہیں چاہتے کہ پاکستان جیسے دفاعی طور پر ناقابل تسخیر ہوا، اب معاشی طور پر مضبوط ملک بن کر ابھرے۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کے چھوٹے بھائی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بارے میں بھی اسی قسم کی قیاس آرائیاں آرہی ہیں کہ یہ خفیہ ہاتھ ان کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنے کو تیاری کررہا ہے کیونکہ کہا جارہا ہے کہ شہباز شریف جنہوں نے بطور وزیراعلیٰ انتہائی محنت اور لگن سے پنجاب میں کام کیا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کے پیچھے شہباز شریف کی پنجاب حکومت نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔لیگی حلقوں کے مطابق اسی خفیہ ہاتھ نے چند روز قبل شہباز شریف پر میٹرو ملتان منصوبے سے اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کا ایشو بنوایااور ایک جعلی کمپنی کہ ذریعے یہ الزام عائد کیا گیا کہ پاکستان سے 2ارب کے قریب رقم چین منتقل کی گئی۔ اس ایشو کو اسی خفیہ ہاتھ نے ملک بھر کے میڈیا میں بھرپور اچھالا مگر اس پروپیگنڈا کاڈراپ سین تب ہوا جب چینی حکومت نے شہباز شریف اور ان کی حکومت پر لگائے جانے والے تمام الزامات مسترد کردیئے اور اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ کمپنی کی طرف سے پیش کئے گئے تمام کاغذات جعلی ہیں اور اس حوالے سے کمپنی کے خلاف کارروائی بھی کی جارہی ہے۔ (ن) لیگ کے حلقے خفیہ ہاتھ کی موجودگی کے حوالے سے مختلف شواہد اور ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ان کا موقف ہے کہ جب سابق وزیراعظم نواز شریف پنڈی سے براستہ موٹروے لاہور آرہے تھے تو یہ وہی خفیہ ہاتھ تھے جنہوں نے نواز شریف کی براہ راست ریلی کی کوریج روکنے کیلئے کہا اور بہت سارے کیبل آپریٹرز اور مختلف چینلز کی نشریات کو اس دوران بند کرنا اور آخری نمبروں پر ڈالنے کیلئے بھی رابطے کیے گئے۔ اب یہ کہا جارہا ہے یہ مضبوط خفیہ ہاتھ شہباز شریف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کیلئے سرگرم ہوچکا ہے اور جلد ہی شہباز شریف کے بارے میں مختلف ایشوز میڈیا پر لائے جائیں گے جس کا مقصد شہباز شریف کی سیاست اور شخصیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کیا نواز شریف کی طرح یہ خفیہ ہاتھ شہباز شریف کے خلاف کامیابی حاصل کرپائے گا یا نہیں۔

تازہ ترین