• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرکٹ کھیلنے والے مختلف ممالک سے کھلاڑیوں کی آمد صحرا میں ہولے سے بادِ نسیم کے چلنے سے کم نہیں۔ سال 2009میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد اِن شہرۂ آفاق کھلاڑیوں کا یہاں یوں اکٹھا ہونا یقیناً ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ لیکن اب جب کہ لاہور میں آزادی سیریز کا پہلا میچ انتہائی کامیابی کے ساتھ کھیلا جاچکا ہے ،کراچی کی فضا میں کچھ سوالات دھوئیں کی طرح اُٹھتے نظر آ رہے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ اِس وقت چاہے شہر کا کوئی ادھیڑ عمر گجراتی پان فروش ہو یا پکّی عمر کا کوئی لمبا چوڑا دلّی والا قصائی ، کوئی عمر رسیدہ پٹھان ٹرک ڈرائیورہو یا بغیر لائسنس رکشا چلاتا ہوا کوئی نو عمر ملتانی، کراچی کا کوئی بھی شہر ی کہیں بھی کسی بھی وقت یہ سوالات کر تا دکھائی دے سکتا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ ان سوالوں کا صحیح یا معقول جواب دستیاب نہیں ۔ پہلا سوال ہے کہ ’’سیریز کا کوئی میچ کراچی میںکیوں نہیں کھیلا جا رہا؟‘‘ دوسرا سوال،’’ کیا کراچی میں کھلاڑیوں پر کبھی دہشت گرد حملہ ہوا ہے؟ ‘‘ تیسرا سوال، سوال سے زیادہ کسی دل جلے کا بیان لگتا ہے، ’’حملہ تو لاہور میں ہوا تھا، وہاں میچ کیسے ہو گیا ؟‘‘ پہلا سوال انتہائی بنیاد ی ہے اور تیسرے سوال میں کسی حد تک غصہ اور شہر پرستی کا گمان ہوتا ہے۔ لیکن دوسرا سوال تاریخی تناظر میں انتہائی اہم ہے۔
شاید یہ سال 1988کی بات ہے۔ ایک روز علی الصبح کراچی کے اسٹیڈیم روڈاور یونیورسٹی روڈ پر مختلف سمتوں سے نوجوانوں کی اَن گنت ٹولیاں پیدل ایک خاص مقام کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ کسی کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی تو کسی کے پاس تھرماس، کسی نے ٹفن تھام رکھا تھا تو کسی نے پیتل کا باجا ۔ تقریبا ً ہر ٹولی کے پاس دو سے چار سبز ہلالی پرچم تھے ۔کچھ نوجوانوں نے سفید فلاپی ، جیسی آصف اقبال پہنا کرتے تھے، کچھ نے کائو نٹی ہیٹ، جیسا ماجد خان پہنا کرتے تھے اور کچھ نے گرین کیپ پہن رکھی تھیں ۔ قہقہے اور نعرے لگاتے ان تمام نوجوانوں کی منزل نیشنل اسٹیڈیم تھی جہاں آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان ایک روزہ میچ کھیلا جانے والا تھا۔
اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھراہوا تھا۔ہر طرف شور وہنگامہ برپاتھا۔ کچھ نوجوان پولیس والوں سے بار بار الجھتے دکھائی دے رہے تھے۔ اگرچہ بڑے میچز میں یہ سب کچھ عام بات ہوتی ہے لیکن اس بار معاملہ معمول کی حد پار کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ابھی ٹاس بھی نہ ہوپایا تھا کہ ایک دھماکہ سنا گیااور اسٹیڈیم کے ایک طرف دھواں سا اٹھتا دکھائی دیا ۔ کچھ لمحوں بعد پاکٹ ریڈیو پر رننگ کمنٹری کے ذریعے معلوم ہوا کہ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیاہے۔
یہ وہی دور تھا جب کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجر قومی موومنٹ کی شہرت اور طاقت اپنا رنگ جمارہی تھی ۔ اگرچہ واقعہ کے اسباب پر اب بھی یقین سے کچھ کہنا ٹھیک نہیںلیکن اُس وقت عمومی طور پر ملک اور خصوصاً کراچی اور حیدرآباد کے سیاسی حالات انتہائی کشیدہ تھے۔واقعہ سے صرف دو ہفتے قبل حیدرآباد میں فائرنگ کے واقعات میں دو سو سے زائد شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کوئی سات ہفتے پہلے صدر ضیاءالحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوااور کوئی ایک ماہ بعد ملک میں عام انتخابات بھی ہونے والے تھے۔ لہٰذا اسٹیڈیم میں اِس ہنگامہ آرائی کے کئی اَسباب ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ اِن تمام اسباب میں دہشت گردی اور کھلاڑیوں کو نشانہ بنانے کے امکانات دور دور تک موجود نہیں تھے ۔
لاہور میں غیر ملکی کھلاڑیوں کو براہ راست نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس کے باوجود پی سی بی اوردیگر اداروں نے پہلے زمبابوے کے خلاف منی سیریز ، پھر پی ایس ایل فائنل اور اب آزادی کپ منعقد کرانے کے لئے انتہائی قابل ستائش انتظامات کرکے ماحول بحال کردیاہے۔دوسری جانب سابق ٹیسٹ کرکٹر اور معروف اسپورٹس اینکر سکندر بخت عرف سِکوبھائی کہتے ہیں کہ کراچی میں دہشت گردی سے کھیل اور کھلاڑیوں کو براہ راست خطرہ نہیں رہا ہے۔لیکن آزادی کپ سے متعلق وہ پی سی بی کا ایک مختلف سطح پر دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فی الحال نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی حالت اس قابل نہیں تھی کہ وہاں میچ کرایا جاسکتا۔’’ اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کر لی جاتی تو بات اور تھی ۔‘‘
اُدھر ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو یقین ہے کہ کراچی میں میچ ہوسکتا تھا لیکن پی سی بی کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ’’در اصل پی سی بی کراچی کو رائٹ آف کرچکی ہے ۔ شہر کے مئیر وسیم اختر کی نگرانی میں اگر پروفیشنل ریسلنگ ایونٹ انتہائی پر امن ماحول میں انجام پذیر ہو سکتا ہے تو یہاں کرکٹ بھی ہوسکتی ہے ۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی ایک عمومی مسئلہ ہے اورشہر میں بڑے مقابلوں کا پُر امن انعقاد یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
کراچی میں کھیلوں سے جڑی بد امنی پر مزید بات کی جائے تو نیشنل اسٹیڈیم میں مذکورہ ہنگامہ آرائی کے کوئی ایک سال بعد بھارت کے خلاف بھی ایک ون ڈے ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا ۔ ظاہر ہے کہ بھارت کے خلاف جاوید میانداد سمیت اگر تین کھلاڑی صرف 28رنز پر آئوٹ ہوجائیں تو دنیا کے پر امن ترین شہر میں بھی میچ ختم ہوسکتا تھا۔ بہرحال اس واقعہ کا بھی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی اس میں کسی کھلاڑی کونشانہ بنانے کی کوئی کوشش کی گئی۔ بلکہ تینوں کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے والا بھارتی بولر منوج پرابھاکر ہنگامے کے دوران اسٹیڈیم میں ایک طرف کھڑا ہنستا کھیلتا پھل کھاتا دکھائی دیا۔
البتہ اس واقعہ کے بعد کپتان عمران خان نے سیاسی رہ نمائوں سے اپیل کی کہ وہ کھیل کے میدانوں میں امن و امان بحال کرانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ شاید اِسی تسلسل میں شہرہ آفاق بیٹسمین جاوید میانداد ایک دِن اچانک نائن زیرو پہنچ گئے ۔آج کوئی غالبا ًیقین نہ کرے لیکن یہ سچ ہے کہ جاوید میانداد اُس وقت نائن زیرو پر موجود سب سے اہم آدمی کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ایک مشہور آئس کریم پارلر لے گئے جہاں دونوں کے درمیان دیر تک گفتگو ہوتی رہی ۔کئی برس بیت جانے کے باوجود اِس گفتگو کے موضوع اور متن کا پتہ نہیں چل سکا لیکن نہ جانے کیوں اِس کے بعد شہر میں منعقدہ تمام ایک روزہ بین الاقوامی اور ٹیسٹ میچز انتہائی پر امن اور خوشگوار ماحول میں کھیلے جاتے رہے ۔
اگر پی سی بی اور حکومت کو آج بھی کراچی کے حالات دہشت گردی کے زیر اثر رہتے محسوس ہوتے ہیں تو کیا شہر میں گزشتہ تین برسوں سے امن بحال کرنے میں مصروف اداروں کی کارکردگی کو قابل اطمینان قرار دیا جاسکتا ہے؟ میری نظر میں اِن کی کارکردگی بڑی حدتک اطمینا ن بخش ہے لہٰذا کرکٹ کے کروڑوں شائقین کے اس شہر میں آزادی سیریز کا کوئی میچ منعقد نہ کرانے پرجواب طلبی ناگزیر ہے۔

تازہ ترین