• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت کیا ہے؟ اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟ یہ سوالات وطن عزیز میں بار بار سامنے آتے رہتے ہیں۔ آج 15ستمبر کا دن خاص طور پر انکا جواب تلاش کرنے کا ہے کیونکہ ہر سال اس تاریخ کو اقوام متحدہ کے تحت جمہوریت کا عالمی دن مناتے ہوئے نیویارک میں انٹر پارلیمنٹری یونین (آئی پی یو) کی مرکزی تقریب کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس سال کے عالمی یوم جمہوریت کی ایک اہم بات ستمبر1997ء میں منظور کئے گئے اس عالمی اعلامیے کی 20ویں سالگرہ کا انعقاد ہے جسکے تحت جمہوریت پسند ممالک نے جمہوری اقدار کے فروغ کا عزم ظاہر کیا تھا۔ وطن عزیز میں جمہوریت کو کئی بار شب خون اور طویل ڈکٹیٹر شپ کے ادوار کا سامنا کرنا پڑا ہے اس لئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارے دانشور اور سیاسی رہنما عام لوگوں کو بھی جمہوری اقدار سے متعلق آگہی دیتے اور خود بھی ان پر عمل پیرا ہوتے مگر عملی کیفیت یہ ہے کہ صرف انتخابات کے انعقاد اور ووٹ کے ذریعے حکومتوں کے قیام کو جمہوریت کا نام دیدیا گیا ہے جبکہ جمہوریت اس سے آگے بڑھ کر ایک ایسے مجموعی رویے کا نام ہے جس میں ایک طرف ہر فرد کو زندہ رہنے، پنپنے اور ترقی کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے تو دوسری جانب چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام ہر گھڑی فعال رہتا ہے جس میں کمیونٹی، محلے، شہر، صوبے اور ملک سے تعلق رکھنے والے امور کو ذاتی مفادات یا انائوں کی بھینٹ چڑھانے کی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ عوامی زندگی پر اثرانداز ہونے کی طاقت و اقتدار کے حامل ہر شخص کو محاسبے کیلئے تیار رہنا ہوتا ہے۔ آج دنیا چونکہ ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے اسلئے ایک خطے کے ملکوں یا مشترکہ ضروریات و مفادات سمیت کسی بھی طور پر باہم منسلک ملکوں کے مابین میل جول میں بھی رواداری پر مبنی ایسے ہی طرز عمل کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ابراہام لنکن نے جمہوریت کی جو تعریف بیان کی اس کے الفاظ مختصر سہی مگر کوزے میں دریا کو سموئے ہوئے ہیں۔ ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کیلئے‘‘۔ ایسی حکومت کے قیام کیلئے تاحال انتخاب کا طریقہ ہی مناسب ترین صورت سمجھا جاتا ہے۔ مگر ہم ووٹوں کی بھاری اکثریت سے حکومت میں آنے والے ہٹلر اور مسولینی کو ڈکٹیٹر اور فسطائی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اسکے برعکس ’’تاج‘‘ کے نام پر چلائے جانیوالے برطانوی نظام کو ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کا درجہ دیتے ہیں کیونکہ جمہوریت ایک ایسے طرز فکر کا نام ہے جو صاحبان اقتدار سے لیکر عام آدمی تک کو باہمی احترام اور خیر خواہانہ جذبات کی لڑی میں پروتا ہے۔ برطانوی نظام کی خوبیاں بیان کرنے والے یہ نہیں کہتے کہ وہاں کے حکمرانوں کے کانوائے میں بیشمار گاڑیاں ہوتی ہیں یا وہاں حکمرانوں کی گزرگاہوں کو کئی کئی گھنٹے بند رکھ کر شان و شوکت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اس نظام کی خوبیاں عام آدمی کو حاصل احترام اور سہولتوں کے حوالے سے بیان کی جاتی ہیں۔ وہاں کے سوشل سیکورٹی کے نظام کا ذکر کیا جاتا ہے جس میں ہر پہلا سانس لینے والے بچے کو زندگی کے آخری سانس تک ہر قسم کا تحفظ حاصل ہے۔ اس نظام کی تعریف روزگار کی سہولتوں، بیروزگاری کے دنوں کے وظائف، علاج معالجے اور تعلیم پر حکومتی مصارف، بزرگ شہریوں کی ضروریات کے احترام، ٹرانسپورٹ کی خوبیوں اور سبکدوش ہونے والے وزیراعظم کے عام ٹرین سے سفر کرکے معمولی فلیٹ میں منتقل ہو جانے کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بھارت، میانمار اور اسرائیل کے رہنما اپنی جمہوریت نوازی کا جتنا بھی ڈھنڈورا پیٹیں کشمیریوں، روہنگیا مسلمانوں اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ان کی تردید کررہے ہیں۔ جمہوری اقدار کو ناپنے کا ایک پیمانہ قومی اداروں کا استحکام ہے جو اس سال عالمی یوم جمہوریت کا موضوع بھی ہے۔ ہٹلر اور مسولینی کو فسطائی اسلئے کہا جاتا ہے کہ وہ قومی اداروں کو اپنی ذات کا تابع بناکر اپنے ملکوں کو تباہی کی طرف لے گئے۔ جمہوری نظام کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس میں قومی ادارے مستحکم ہوتے اور اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ ہم جس پاک وطن میں رہتے ہیں اس کا قیام جمہوریت کی بنیاد پر ہوا، اس کی بقا کا تقاضا بھی یہ ہے کہ جمہوری اقدار و روایات کی پوری طرح پاسداری کی جائے،انحراف کی بالکل گنجائش نہ رکھی جائے۔

تازہ ترین