• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مزدور کسی بھی صنعت کی بڑھوتری ، اُسے منافع بخش بنانے اور ملکی معاشی صورتحال کو بہترکرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں مزدوروں کو اُن کی محنت کے مطابق مزدوری دی جاتی ہے نہ ہی زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔مالی سال2017-18کے بجٹ میں وفاق کی طرف سے غیر ہنر مند مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت 15000 مقرر کی گئی تھی جبکہ صوبائی حکومتوں سے بھی اس پر عملدرآمد کے لئے کہا گیا تھا لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ بعض صنعتوں میں اس پر سرے سے عمل نہیں ہو رہا۔ انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں مزدور کی کم از کم اجرت 25000 جبکہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے مطابق 31000روپے ہونی چاہئے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق نے کم از کم اجرت مقرر کرنے کا اختیار صوبوں کو تفویض کر دیا تھا۔ اس وقت وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں ’’ مینمم ویج آرڈیننس 1961ء‘‘ رائج ہے جبکہ سندھ اور خیبر پختونخوا حکومت نے اِس حوالے سے خود قانون سازی کی ہے۔صوبائی حکومتیں کم از کم اجرت مقرر کرنے میں مکمل خود مختار ہیں۔مئی میں پنجاب کے وزیر محنت و افرادی قوت کی طرف سے وزیر اعلیٰ کو ایک سمری بھجوائی گئی تھی جس میں مزدوروں کو منافع کا پانچ فیصد دلوانے کی تجویز تھی مگر یہاں منافع میں حصہ تو درکنار اتنے زیادہ قوانین ہونے کے با وجود آج بھی مزدور کو مقرر کردہ کم از کم اجرت بھی نہیں ملتی۔ پاکستان کی سب سے بڑی صنعت یعنی گارمنٹس انڈسٹری میںاوربھٹہ مزدوروں کا سب سے زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔عام مرد مزدور کو ماہانہ دس ، گیارہ ہزار اور مزدور عورت کو ساڑھے سات ہزار روپے سے زیادہ اجرت نہیں دی جاتی۔وزرات محنت کی ذمہ داری ہے کہ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر مزدور کی کم از کم اجرت میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائےاور جو فیصلے کئے جائیں ان پر بلا تفریق عمل بھی کیا جائے۔

تازہ ترین