• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرپشن یامالی بدعنوانی کی روک تھام کے لئے دنیا بھر کے بیشتر ملکوں نے اپنے اپنے نظام کے تحت اینٹی کرپشن ایجنسیاں قائم کر رکھی ہیں جن میں برطانیہ، روس، نیوزی لینڈ، چین، کینیڈا، آسٹریلیا جیسے کئی ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں وہاں یہ ادارے بحسن و خوبی کامیابی کیساتھ کام کر رہے ہیں۔ انسداد بدعنوانی کیلئے ان کے علاوہ کسی دوسری ایجنسی کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ پاکستان میں ایک سے زیادہ ایجنسیاں کرپشن کی روک تھام کیلئے کام کر رہی ہیں لیکن ملک ایک سرے سے دوسرے سرے تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے ۔ اس حقیقت کے پیش نظر ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس لمحہ فکریہ ہیں کہ جب صرف ریگولر پولیس ہوتی تھی تو کرپشن کے صرف سو مقدمات ہوتے تھے ، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ آنے کے بعد مقدمات کی تعداد ہزاروں میں اور نیب کے قیام کے بعد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔ سندھ میں ناجائز بھرتیوں کے ایک کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ نیب نے بھرتی ہونے والے افراد کو تو ملزم بنا لیا ہے لیکن جنہوں نے انہیں غیر قانونی طور پر بھرتی کیا ان کو ریفرنس میں شامل نہ کرکے بہت بڑی کوتاہی کی گئی ہے۔ عدالت نے اپنے مشاہدے میں اظہار کیا ہے کہ ملک میں انسداد بدعنوانی کے جتنے زیادہ ادارے بنائے گئے ہیں کرپشن میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہوا ہے اور یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ کرپشن ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ۔ اس صورت حال نے دنیا میں ملک کا تشخص بری طرح مجروح کیا ہے ۔ اب حالت انتہائی دگر گوں ہوچکی ہے اگر اب بھی اس کو نظر انداز کیا گیا تو آنے والا وقت ہمیں معاف نہیں کریگا ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کےکامیاب ترین ملکوں کے اقدامات کی روشنی میں کرپشن کے خاتمے کیلئے از سر نو موثر نظام بنایا جائے اور ملک و قوم کا کثیر سرمایہ بدعنوان عناصر کی نذر ہونے سے بچایا جائے۔

تازہ ترین