• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض اوقات پڑھتے ہوئے کسی مضمون کا موٹا سا مفہوم تو سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن نفس مضمون اور اس کا صحیح مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہوتا اور نہ ہی یقین ہوتا ہے کہ جو سمجھا ہے وہ ہی صحیح مفہوم ہے۔ ایسا ’’حادثہ‘‘ عام طور پر قرآنی تعلیمات یا فقر اورروحانیت کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے پیش آتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی لگتا ہے جیسے بات ذہن کے اوپر سے گزر گئی ہے اور ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ والی صورتحال ہے۔ ایسے مواقع پر میں لاشعوری طور پر اس تلاش میں رہتا ہوںکہ جو بات سمجھ سے بالاتر تھی اس کی وضاحت یا سادہ تشریح کہیں مل جائے تاکہ ذہن کا ادھار بیباق ہو جائے اور ادراک کا نیم تاریک گوشہ منور ہوجائے۔
ہاں اس حوالے سے ایک اور تجربے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ فقر، روحانیت اور صوفیانہ کلام سنتے ہوئے مجھے اکثر احساس ہوا ہے کہ ان معاملات، احوال اور اشعار کا تعلق خالصتاً ذاتی وارداتِ قلبی یا روحانی تجربے سے ہے اس لئے جب تک انسان خود اس تجربے سے نہ گزرے، اس کیفیت کا مزہ نہ چکھے اور خود اس پر وہ واردات نہ بیتے وہ ان الفاظ اور اشعار کے مفہوم کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتا۔ الفاظ کے معانی تو سمجھ میں آ جائیں گے لیکن ان کا مفہوم تبھی آپ کی روح کو چھوئے گا اور آپ کو اپنی کیفیت کی بانہوں میں جکڑے گا۔ اگر آپ اس طرح کی قلبی و روحانی واردات کا تجربہ کرچکے ہیں مثلاً میاں محمدؒ صاحب یا حضرت سلطان باہوؒ کا صوفیانہ کلام مرشد کے ذکر سے بھرا ہواہے۔ وہ انسان جسے کبھی مرشد کامل ملا ہی نہیں یا جسے کسی روحانی شخصیت کی قلب پر نگاہ کا تجربہ ہی نہیں وہ مرشد کا لفظ پڑھ یا سن کر لفظی معنی تو سمجھ جائے گا لیکن مرشد کے صحیح مفہوم، تصور اور مقام سے لاعلم رہے گا۔ تفصیل میں جانا مناسب نہیں اس لئے اب آج کے موضوع کی جانب آتا ہوں۔
میں نے سورۃ النور کا مطالعہ کرتے یا تلاوت کرتے ہوئے یہ بات کئی بار پڑھی لیکن اس کا مفہوم نہ سمجھ سکا۔ چند روز قبل محترم جناب سرفراز شاہ صاحب کی تازہ کتاب ’’نوائے فقیر‘‘ پڑھتے ہوئے اس آیت مبارکہ کامفہوم پڑھا تو وہ دل کو لگا اور سوچا کہ یہ آپ سے شیئر کروں۔ سورۃ النور کی آیت نمبر 35میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا۔ اس کے نور کی مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا، روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے، جو نہ پورب کا نہ پچھم کا، قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ چراغ، فانوس، زیتون کا مبارک پیڑ جو نہ مشرقی ہے نہ غربی۔ ان سب چیزوں سے کیا مراد ہے؟
جواب :روحانیت میں اس کویوں بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ کا اپنا جو نور ہے اسی نور کے ایک حصے سے تخلیق ہوئے آپﷺ، اسی نور کے ایک حصے سے پاک ارواح تخلیق ہوئیں اور اسی نور کے ایک حصے سے عام ارواح کی تخلیق ہوئی۔
اللہ کا نور وہ چراغ ہے جو جل رہا ہے اور اپنے نور کوپھیلارہا ہے۔ نور کو دائروں کی شکل میں یوں سمجھا جاسکتا ہے۔ چراغ شیشے کے بنے ہوئے فانوس میں ہے اور اس چراغ میں زیتون کا تیل ہے جو خودبخود بھڑک اٹھنے کوتیارہے۔ ہم اسے یوںبھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کا نور ہی سب کچھ ہے اور کائنات رب کے نور ہی سے روشن ہے۔ کوئی اور نور ایسا نہیں جس نے کائنات کو روشن کیا ہو۔
انسان کا دل اس شیشے کے فانوس کی مانند ہے۔ اگروہ شیشہ دھندلایا ہوا ہو تو روشنی پھیل نہیں سکے گی بلکہ اسی میں قید رہ جائے گی۔
چراغ کے اردگرد کا شیشہ جتنا اجلا اور صاف ہوگا اس میں سے اسی قدر روشنی نکلے اور پھیلے گی۔ جب ہم دل کو آئینے کی مانند صاف کرلیں گے اورچمکالیں گے تو پھر اس چراغ کی روشنی جب دل پر پڑتی ہے تو یہ روشنی چاروں طرف منعکس ہوتی ہے۔اگر اس دل میں کثافت ہے تو جب تک وہ دور نہ ہو رب دل میں نہیں رہتا۔ حضرت امام غزالیؒ نے دل کی دس کثافتیں بیان کی ہیں جن میںحسد، کینہ، بغض، حرص، لالچ وغیرہ شامل ہیں۔ جب تک ہم دل کو ہر قسم کی کثافت سے پاک کرکے آئینے کی مانند صاف نہیں کرتے یہ رب کا ٹھکانا نہیں بنتا۔ جب تک ہم چراغ کا شیشہ صاف تہیں کریں گے روشنی وہاںسے منعکس نہیں ہوگی۔
روحانیت میں ’’فانوس‘‘ سے مراد ’’دل‘‘ ہے جیسے کہتے ہیں کہ دل میں رب رہتا ہے۔ جب تک دل صاف نہیں ہوگا تب تک نور کا چراغ دل میں روشنی نہیں پھیلا سکے گا۔
یہ جو زیتون کے مبارک درخت کا ذکر ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھنے کو تیار ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی۔ اس سے مراد علم اور ایمان ہے۔ رب تعالیٰ نے فرمایا جو میری طرف ایک قدم آتا ہے میں اس کی طرف دس قدم آتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ جوشخص نیکی کی راہ اختیار کرتا ہے اس کے دل میں سوئے ہوئے ایمان کی چنگاری ایک دم بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ نیکی کی راہ میں ذرا سی پرخلوص Effortکرتا ہے تو ایمان سر اٹھاتا ہے اور پوری قوت سے پنپنے لگتا ہے۔ چونکہ ایمان کی کوئی حد نہیں اس لئے کہا گیا کہ وہ نہ مشرقی ہے نہ مغربی۔
بھڑک اٹھنے سے مراد ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھنے کو تیار ہے اور ’’بھڑک اٹھنے کوتیار‘‘کا مطلب ہے کہ صرف ایسا انسان چاہئے جوایمان کی راہ پر پہلا قدم اٹھائے۔ اس کے بعدمعاملات چل نکلتے ہیں۔
زیتون کےتیل کی جو مثال ہے اس ضمن میں عرض کردوں کہ اللہ پاک ہے اور رب کے ساتھ پاکیزگی ہی کا تعلق ہوسکتا ہے،کثافت کا نہیں۔ اگرہمیں رب کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہے تو ہمیں خودکو پاک کرنا ہوگا۔ وہ پاکیزگی صرف جسمانی طہارت اور وضو کی پاکیزگی نہیں بلکہ Intellectual پاکیزگی ہے۔ ہمیں ذہنی طور پر پاکیزہ ہونا ہوگا تاکہ ہم رب کے ساتھ تعلق قائم کرسکیں۔
سورہ نور میں پاک باز لوگوں پر تہمت لگانے سے منع کیا گیا ہے۔ ایسا شخص جو پاک باز بیوی یا پاک باز لوگوں پر الزام لگائے اور اسے ثابت نہ کرسکے اس کی سزا 80کوڑے ہے۔ intellectual پاکیزگی کا مطلب ہے کہ ہماری سوچ پاک ہو۔ جب ہماری سوچ پاک ہو تو ہم کسی کے بارے میں بدگمان نہیں ہوتے۔ دوسروں کی عزت کواپنی عزت سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں۔ رب تعالیٰ کی ستار العیوب سنت پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کے عیوب چھپا لیتےہیں، زبان سے کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس سے کسی کی ذات پر حرف آئے، کسی کی بدنامی ہو، کسی کی شہرت کو نقصان پہنچے۔جب ہم ذہنی طور پر پاکیزہ ہو جاتے ہیں تو گناہوں کا سوچتے ہی نہیں اور جب سوچتے ہی نہیں تو گناہوں سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ کسی بھی عمل کا آغاز سوچ سے ہوتا ہے، اس کے بعد نیت، ارادہ اورعمل وجود میں آتا ہے۔ جب سوچ ہی نہ آئے تو پھر باقی تینوں چیزیں وجود میں نہیں آئیں گی۔
اگر ہم رب کے ساتھ تعلق جوڑنا چاہتے ہیں توہمیں ذہنی طور پر اپنی سوچ کو پاکیزہ کرنا ہوگا کیونکہ رب پاک ہے اور پاک سوچ ہی اس سے تعلق رکھ پائے گی۔ مرکزی نقطہ اور نچوڑ قلب کی صفائی ہے۔ یہ پہلی شرط اور اولین تقاضا ہے کیونکہ قلب دنیاوی آلائشوں سے پاک ہوگا توروح دنیاوی ’’کثافتوں‘‘ سے پاک ہوکر باطن میں روشنی پھیلائے گی۔ اگر قلب اور روح کے فانوس کا شیشہ سیاہ ہو تو روشنی باہر نہیں نکل سکتی۔ یہ سادہ سی بات ہے جو روحانیت سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے سمجھنی ضروری ہے۔

تازہ ترین