• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے اور اندر کی جنگیں بنی نوع انسانی کے لئے زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی ہیں اور زیادہ تر اُن کے بطن ہی سے بڑی بڑی جنگیں جنم لیتی رہی ہیں۔ دل میں جو گرہیں پڑتی جاتی ہیں، وہی آگے چل کر بڑی بڑی تباہیوں کا باعث بنتی ہیں اور برسوں کے یارانے ایک پل میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ کبھی یہ کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے جسے پروین شاکر نے ایک خاص تجربے میں ڈھال دیا ہے ؎
مدت کے بعد اس نے جو آواز دی مجھے
قدموں کی کیا بساط، سانسیں بھی رُک گئیں
انسانی تعلقات کا عالم بڑا عجیب سا ہے، کبھی آپ ٹوٹ کے محبت کرتے ہیں اور کبھی آپ کے وجود سے نفرت کے شعلے لپکنے لگتے ہیں۔ عظیم شاعر الطاف حسین حالیؔ نے ایک بہت بڑی حقیقت ایک سادہ شعر میں اِس طرح بیان کی ہے کہ انسانی نفسیات کا پورا معمہ کھل کے سامنے آ گیا ہے ؎
بڑھاؤ نہ آپس میں الفت زیادہ
مبادا کہ ہو جائے نفرت زیادہ
اِسی غزل کا ایک شعر پوری انسانی تاریخ کا نچوڑ پیش کر دیتا ہے ؎
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
اور یہ بھی ایک ازلی حقیقت کا اظہار ہے ؎
مصیبت کا اِک اِک سے احوال کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ
ہم آج اپنی اِک اِک مصیبت کا احوال سناتے سناتے بہت بڑے مرثیہ خواں بن گئے ہیں اور دنیا ہماری مصیبتوں کا احساس کرنے کے بجائے ہم سے بیزار ہوتی جا رہی ہے۔ اس عدم توجہی اور بیزاری نے عجب عجب رنگ دکھائے ہیں اور ہمارے اندر گاہے بقا اور گاہے اَنا کی جنگ جاری ہے۔ ایک جنگ فطری ہے جو ہر شخص کے اندر خیروشر کے درمیان بپا ہے اور جب خیر پر شر غالب آ جاتا ہے، تو حیاتِ انسانی کا توازن بگڑنے لگتا اور خارجی تصادم کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ہمارے صوفیائے کرام تزکیۂ نفس کے ذریعے اس تصادم کی روک تھام کا سامان فراہم کرتے اور محبت کے جام لنڈھاتے ہیں۔ قیامِ امن کے لئے لاتعداد کوششوں کے باوجود پاکستان کو اپنا گھر درست رکھنے کے مشورے اور الٹی میٹم دیئے جا رہے ہیں جو آجکل بڑی طاقتوں کے دارالحکومتوں میں گفتگو کا موضوع بنے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کے اندر جنگ کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
برکس اعلامیے پر سنجیدہ غور و خوض کے بجائے بعض سیاسی زعمائے کرام کو ایک دوسرے کے خلاف دل کا غبار نکالنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ نئے وزیرِ خارجہ جناب خواجہ محمد آصف جو چار سال وزیرِ دفاع رہے، اُن کی طویل عرصے سے چوہدری نثار علی خاں سے بات چیت بند تھی، حالانکہ وہ دونوں کابینہ کے نہایت اہم ارکان میں شامل تھے۔ یہ صورتِ حال کابینہ کی اسپرٹ کے خلاف تھی جو مشترکہ ذمہ داری کے احساس کے ساتھ عبارت ہے اور یکسوئی اور کامل اعتماد کے ساتھ مشاورت کا تقاضا کرتی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ سے نااہل قرار پانے کے بعد وزیراعظم نوازشریف کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور اُن کی جگہ شاہد خاقان عباسی وزیراعظم کے طور پر منتخب ہوئے۔ اُن کی کابینہ میں چوہدری صاحب نے وزارتِ داخلہ کا قلم دان اُٹھانے سے انکار کر دیا۔ نئی کابینہ میں وزارتِ خارجہ کا ہما خواجہ صاحب کے سر پر بیٹھا اور وزارتِ داخلہ جناب احسن اقبال کے حصے میں آئی جو نہایت متحرک نظر آتے ہیں اور داخلی سلامتی پر غیر معمولی توجہ دے رہے ہیں۔ نوازشریف کی کابینہ کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خاں نے اپنے قائد کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کرنے کا تاثر دیا اور ایک موقع پر یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان انتہائی سنگین خطرات سے دوچار ہے جن کا پورا علم صرف پانچ افراد کو ہے۔ ان میں نوازشریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ اسحٰق ڈار اور وہ بھی شامل ہیں۔ ان سنگین خطرات کے پیشِ نظر اُن کا نواز شریف کے لئے مشورہ یہ تھا کہ وہ اپنی نااہلی کا مقدمہ قانون کے محاذ پر پوری تیاری کے ساتھ لڑنے پر توجہ دیں اور عدلیہ اور فوج کے ساتھ محاذ آرائی سے مکمل اجتناب کریں۔ بعد میں یہی باتیں اُنہوں نے ’جیو‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے تفصیل سے بیان کیں اور دوٹوک الفاظ میں کہا کہ جناب نواز شریف کے بعد جناب شہباز شریف مسلم لیگ نون کی صدارت کے مستحق ہیں اور وہ مریم نواز کو اپنا لیڈر تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ سیاسی تجربے کے اعتبار سے بچی ہیں اور اُنہیں غیر معمولی سیاسی تربیت اور تجربے کی ضرورت ہو گی۔
اِسی دوران این اے 120میں محترمہ کلثوم نواز کو اُتارنے کا فیصلہ ہو گیا جنہیں اپنی بیماری کے سلسلے میں فوری طور پر لندن جانا پڑا۔ چند ہی روز بعد اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے سلسلے میں نوازشریف بھی لندن چلے گئے۔ جانے سے پہلے وہ غیر رسمی اعلان کر چکے تھے کہ میری جگہ شہباز شریف مسلم لیگ نون کے صدر ہوں گے، مگر آخری وقت پر جناب سردار یعقوب ناصر قائم مقام صدر منتخب کر لئے گئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس فیصلے سے جناب شہباز شریف کی توقعات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ان کو اس ناخوشگوار صورتِ حال کا دوسری بار سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم کے انتخاب کے وقت پہلے پہل یہ تاثر دیا گیا تھا کہ شہبازشریف کے قومی اسمبلی کے رکن بننے تک جناب شاہد خاقان عباسی عارضی وزیر اعظم ہوں گے۔ ان کی چھ ہفتے کی کارکردگی پر قومی حلقے اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ فیصلے ادارہ جاتی طور پر کئے جا رہے ہیں اور خارجہ امور میں ایک جاندار موقف اختیار کیا جا رہا ہے۔
نئے وزیرخارجہ جناب خواجہ محمد آصف نے برکس اعلامیے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنے اور دنیا کو اپنے موقف کا ہم نوا بنانے کی ضرورت ہے۔ اس پر سابق وزیرداخلہ جناب چوہدری نثار علی خاں نے کہا ایسے وزیرخارجہ کے بعد ہمیں کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں دنیا سے کہنا چاہئے کہ اب وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے زیادہ سے زیادہ اقدامات کرے، کیونکہ پاکستان ستر ہزار جانوں کی قربانیاں دے چکا اور 123؍ارب ڈالر کا نقصان برداشت کر چکا ہے۔ خواجہ آصف نے چین، ایران اور ترکی کے دوروں میں پاکستان کے لئے علاقائی حمایت حاصل کی ہے۔ 21ستمبر کی رات وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے اور اُمید ہے وہ پوری تیاری کے ساتھ جائیں گے اور عالمی برادری کو اپنا ہم نوا بنانے کی دانش مندانہ کوشش کریں گے۔ اس اثنا میں حلقہ این اے 120کا نتیجہ سامنے آ جائے گا جس کے ہماری قومی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور آج نوازشریف اور شہبازشریف کے خاندان کے مابین گہرے تعاون اور اعتماد کی اشد ضرورت ہو گی۔
این اے 120میں بیگم کلثوم نواز کی انتخابی مہم بڑی جرأت مندانہ انداز میں اُن کی صاحبزادی مریم نواز چلا رہی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نوازشریف کا عکس قرار دیا ہے۔ ان کی شبانہ روز کوششیں کس قدر ثمر آور ثابت ہوتی ہیں، اس کا علم دو روز میں ہو جائے گا۔
اُن کی کامیابی ان صحت مند سیاسی قوتوں کی کامیابی شمار ہو گی جو سیاسی استحکام، آئین کی بالادستی اور پارلیمان کے ذریعے اقتدار کی تبدیلی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کو جس ناقابلِ فہم طریقے سے اقتدار سے نکالا گیا، اس نے عوام کے اندر شدید اضطراب پیدا کیا ہے اور وہ اُمید رکھتے ہیں کہ فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کی سماعت فل کورٹ کرے گی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپیل کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کو متحد رہنا اور ایک دوسرے کے احترام کی روش اختیار کرنا ہو گی، ورنہ سبھی بے وقار ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ نون کے حریف اس امر کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اندر کے معمولی اختلافات شدید جنگ میں تبدیل کر دیے جائیں۔
میں جناب عمران خاں کو اپنی داخلی شکست برسرِعام تسلیم کرنے پر دادِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے بڑی جرأت سے کام لیتے ہوئے اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے کہ اُنہیں 2013ء میں مرکزی حکومت نہیں ملی، ورنہ پورے ملک کا حال خیبر پختونخوا جیسا ہوتا۔

تازہ ترین