• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیو ٹی وی کی مہربانی ہے کہ اس نے پاکستان میں بہت سے نیوز اینکرز متعارف کروائے بلکہ جیو ہی وہ پہلا نیوز چینل ہے جس نے نیوز کو بہتر انداز میں پیش کرنے کا انداز متعارف کروایا۔ دوسرے نیوز چینلز نے مزید مہربانی کرتے ہوئے ان میں سے بہت سے نیوز اینکرز کو توڑا، انہیں توڑ کران سے سیاسی شوز کی میزبانی شروع کروا دی۔ یہیں سے گڑبڑ شروع ہوئی۔ لکھی لکھائی خبریں پڑھنے والوں کو جب سیاسی شوز کی میزبانی کرنا پڑی تو وہ بری طرح فلاپ ہوگئے، بعض نے سہارا یہ لیا کہ وہ ابتدائیہ لکھا ہوا پڑھ کر پروگرام کی کوشش کرنے لگے مگران کی یہ کوشش اس وقت گہری کھائی میں گر جاتی جب وہ سیاسی سوال کرنے کی کوشش کرتے۔ اس ناکامی کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ نیوز اینکرز سے سیاسی شوز کے اینکرز بننے والوں کے پاس لفظوں کا ذخیرہ نہیں ہے، نہ ہی انہیں سوال کرنا آتا ہے، وہ تو ہمیشہ لکھے ہوئے لفظوں کے محتاج رہے ہیں۔ ان میں دوسری کمی یہ ہے کہ چونکہ ان کا صحافتی تجربہ نہیں ہے لہٰذا انہیں بہت سے سیاسی واقعات کا علم ہی نہیں، یہ لوگ ملکی سیاسی تاریخ سے نابلد ہیں۔ تیسرے نمبر پر انہیں ایک اور پریشانی کا سامنا رہتا ہے،یہ پریشانی مطالعہ کی کمی ہے، مطالعہ کی کمی کے سبب انہیں مختلف علاقوں کے سیاسی مزاج کی بھی سمجھ نہیں اور نہ ہی وہ شہری اور دیہی سیاست میں تمیز کر پاتے ہیں۔ یہ وہ پیرا شوٹرز ہیں جنہیں زمینی حقائق کا بھی علم نہیں۔ اب جب ڈھنگ کے سیاستدانوں نے ٹی وی ٹاک شوز میں آنا کم کیا ہے تو انہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کیلئے خود کو متعارف کروانا شروع کردیا ہے، سابقہ نیوز اینکرز اور حالیہ سیاسی اینکرز نے خود کو ایک دوسرے کے پروگرام میں تجزیہ کار اور سینئر صحافی کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے، ان میں سے اکثریت کوحکومت اور اپوزیشن کے ساتھ ریاست کے فرق کا علم نہیں ہے، وہ اکثر حکومت پر تنقید کرتے کرتے ریاست پر تنقید شروع کردیتے ہیں، شو کی ریٹنگ کے چکر میں ’’رولا‘‘ ڈالنے والے نازک ملکی معاملات کو نظرانداز کر جاتےہیں، ملکی معاملات کا جو حشر پاکستانی الیکٹرونک میڈیا پر نظر آتا ہے وہ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں نظر آئے۔ ایک ہی معاملے کو طویل دورانیے کے لئے رگڑنے والے یہ نہیں سوچتے کہ اس سے ملک کا کتنا نقصان ہورہا ہے۔ بعض پردہ ڈالنے والے یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ پاکستان کا الیکٹرونک میڈیا نابالغ ہے، بعض کہتے ہیں کہ یہ میڈیا ابھی میچور نہیں ہے۔ ان سب باتوں کے شور میں ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ کا فقدان نظر آتا ہے۔
اگر آپ جدید ترین اور ترقی یافتہ ملکوں کے الیکٹرونک میڈیا کا تجزیہ کریں تو آپ کو دو باتیں بڑے واضح انداز میں نظر آئیں گی، نمبر ایک نیوز چینلز کی بھرمار نہیں ہوگی، دیگر کئی موضوعات پر آپ کو الگ الگ چینلز نظر آئیں گے۔ نیوز چینلز کا بھی آپ بغور جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان جدید ترین ترقی یافتہ ملکوں میں نیوز چینلز اپنی ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ کا پوری طرح خیال رکھتے ہیں، ان ملکوں میں کبھی بھی ریاست پر تنقید نہیں ہوتی، حکومتوں پر تنقید ضرور ہوتی ہے، حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کیا جاتا ہے مگر ریاستی پالیسیوں پر میڈیا ریاست کا ہم آواز ہوتا ہے۔
دنیا کے طاقتور ترین ملکوں میں ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ کے تحت ریاست کےمفاد میں سول ملٹری قیادت، تھنک ٹینکس اورمیڈیا ہمیشہ ایک پیج پر نظر آتے ہیں پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے، یہاں سیاستدان بھانت بھانت کی بولیاں ہانکتے ہیں، یہاں کا میڈیا آزادی کے نام پر ریاست کو پامال کرتا ہے، یہاں تھنک ٹینکس ریاست کے بجائے اپنے مفادات کا تحفظ ضروری سمجھتے ہیں۔ یہاں کی سول سوسائٹی، ریاست کےخلاف موم بتیاں لے کر آجاتی ہے، دنیا کے باقی ملکوں میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں حکومت، ریاستی ادارے، نیشنل میڈیا اور تھنک ٹینکس ایک پلیٹ فارم پر نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے ہماری ریاست کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ مثلاً ہمارے لوگوں میں بہت تقسیم ہے، ہم اپنے اپنے گروہ کے مفاد کی محبت میں پاکستان کا مفاد بھول جاتے ہیں۔ آج کی نازک ترین صورتحال میں ہمیں ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ کی بہت ضرورت ہے، آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے سیاستدان، ہماری فوج، ریاستی ادارے، نیشنل میڈیا، تھنک ٹینکس، سول سوسائٹی اور دانشور ایک پیج پر نظر آئیں۔ اگر یہ سب ایک ہو جاتے ہیں تو پھر آپ پاکستان کو دنیا کی مضبوط ترین ریاست کہہ سکتے ہیں مگر اس مضبوطی کیلئے ہمیں ایک ہونا پڑے گا تاکہ ہم سب مل کر خطرات کا مقابلہ کرسکیں۔ دنیا میں جو ریاستیں ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ پر عمل نہیں کرتیں، ان کا شمار کمزور ترین ریاستوں میں ہوتا ہے، جن ملکوں میں اس تھیوری پر سختی سے عمل ہوتا ہے وہاں ریاست طاقتور ترین نظر آتی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اب پاکستان میں ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ پر عمل کیا جائے۔ اس کے لئے بہت سنجیدگی سے سوچا جارہا ہے۔ دنیا میں کئی ملکوں نے ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ کے تحت سخت اور کڑوے فیصلے کئے۔ ہماری ہمسائیگی میں چین کو دیکھ لیجئے، وہاں ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ کے تحت کام ہوتا ہے، امریکہ میں بھی ایسا ہی ہے، برطانیہ کے علاوہ روس میں بھی ایسا ہی ہے، چند ایک اسلامی ملکوں میں بھی ایسا ہی ہے، کیا عجب لمحات تھے جب چین کے انقلابی رہنما مائوزے تنگ کو یہ کہنا پڑا کہ ’’میری قوم ایک عرصے سے مغرب کی غلام تھی، افیون ہماری کاشت تھی، ہمارے ہاں جہالت کے انبار تھے، پھر میں نے ان جاہلوں کو پڑھانے کی کوشش کی، انہوں نے علم کو جھٹلا دیا، میں نے ان سے ووٹ کا حق چھین لیا اور صرف علم والوں کو اختیار دے دیا، چنانچہ اسی گھسی پٹی جمہوریت سے چین میں انقلاب برپا کردیا، آپ کی تو الہامی کتاب کہتی ہے کہ علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے پھر آپ کے آئین میں جاہلوں کو اس فیصلے کا حق کیوں دیا ہوا ہے؟‘‘ مائوزے تنگ کو چینیوں کے لئے بڑے سخت فیصلے کرنا پڑے، اگر مائو تلخ فیصلے نہ کرتا تو آج کا چین پہلے کی طرح غلام ہوتا، چینیوں نے سخت فیصلوں سے غلامی کی رنجیروں کو توڑا ہے، ہمیں بھی ان زنجیروں کو توڑنے کے لئے کچھ سخت فیصلے کرنا پڑیں گے، ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ نہ ہونے کے باعث ہماری ریاست کے اندر ترقیاتی عمل بہت حد تک رک چکا ہے، کرپشن اور ناانصافی عام ہے، جبر کا نظام ہے، یہی نظام ہمیں پیچھے دھکیل رہا ہے جبکہ ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ وطن پیارا ہوتا ہے، اسی پیار میں ریحانہ قمر کے چند اشعار پڑھتے جایئے؎
جو میرا درد جان پہ سہتا ہے میری جان
اس گھر میں کوئی اور بھی رہتا ہے میری جان
دنیا کے کام کاج میں الجھی رہوں مگر
تیرا خیال بھی مجھے رہتا ہے میری جان
جی چاہتا ہے جان بھی کر دوں نثار میں
جس دم وہ مجھ کو پیار سے کہتا ہے میری جان

تازہ ترین