• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ 19برس میں پاکستان کی آبادی 57فی صد بڑھی ہے۔ جس ملک میں پانچ کروڑ بچّے ان پڑھ ہوں، خود کو زبردستی یقین دلانے کو یہ بھی کہہ دیں کہ اسکول میں پڑھنے والے سو فی صد پڑھتے اور پاس ہوتے ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ اسکولوں سے 50فی صد بچّے پڑھائی سے بھاگ جاتے ہیں اور 50فی صد جوں توں کر کے محض پانچویں کو بہت سمجھتے ہیں۔ سبب یہ بھی ہے کہ مڈل اور ہائی اسکول کسی دوسرے گائوں میں ہوتا ہے، پیدل چلنا پڑتا ہے۔ آج کے بچّے ہمارے بزرگوں جیسے تھوڑی ہی ہیں کہ ہمیشہ انہوں نے اپنی ٹانگوں پر بھروسا کیا، چلتے رہے۔ سائیکل آنے سے پہلے لوگ دور فاصلے پر گھوڑوں پر جاتے تھے۔ خاندان کو جانا ہوتا تھا تو بیل گاڑی استعمال کی جاتی تھی۔
ساری این جی اوز اور دوسرے فلاحی ادارے بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم اپنے اپنے علاقے میں جدید تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں یونیسیف ہو کہ کوئی اور عالمی ادارہ گزشتہ سال خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کررہے۔ ہر آنے والی حکومت نے یہ شوشے چھوڑے، اسی طرح غربت دور کرنے کے سہانے خواب دکھائے۔ بلدیاتی اداروں کی موجودگی کے باوجود پاکستان کے دیہات کی حالت زار رتی بھر نہیں بدلی ہے۔ وہی 37فی صد پڑھی لکھی وہ بھی شہروں کی آبادی ہے۔ امیر لوگوں کے بچّے او لیول کرنے کے بعد باہر پڑھنے چلے جاتے ہیں۔ بہت کم بچّے ہیں چاہے لڑکیاں ہوں کہ لڑکے باہر کی نوکری اور پھر شادی بھی کر لیتے ہیں۔ جو واپس آتے ہیں وہ ملٹی نیشنل میں اہم عہدوں اور بڑی تنخواہوں پر کام کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی نہ زمینی حقائق سے آشنا ہوتا ہے اور نہ اسے ماحول ملتا ہے کہ وہ کبھی اپنی آنکھوں سے 70فی صد عوام کے رہائشی، صحت اور تعلیم کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے آگاہ ہو اور لوگوں کو بھی آگاہ کر سکے۔ پہلے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے بنا کرتے تھے۔ جب ایک منصوبہ مکمل نہ ہو سکا تو اب روزمرّہ کے کاموں کو ہی نمٹایا جاتا ہے۔ ایم این اے اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران 5,5کروڑ روپے سال کے حاصل کرتے ہیں۔ اپنی خودی بلند کرنے کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں۔ پاکستان کیا ہندوستان کا بھی یہی حال ہے۔ شہروں میں میٹرو اور دیہات میں موٹر سائیکل رکشے، راجستھان چلے جایئے کہ پٹنہ، اس پٹنہ شہر کی تنگ گلیوں میں سڑک پر بیٹھی عورتیں سبزی اور مچھلی بنا کر فروخت کر رہی ہوتی ہیں۔
اب آئیں ذرا افغانستان کی جانب چلیں۔ یہاں داعش اور طالبان کا کوئی آدھے حصّے پر قبضہ ہے۔ جو کچھ تھوڑی بہت اسمبلی میں شعور اور آزادی ملی ہے اس کے باعث کل ان خواتین نے شور مچایا کہ آئندہ ہمیں فلاں کی بیٹی یا فلاں کی بیوی کے نام سے مت پکارا جائے، ہمارے اپنے نام ہیں، ہماری اپنی شناخت ہے۔ یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی کہ آج افغان عورتیں یہ بولی ہیں کل ضرور کہیں گی کہ اے امریکیو! ہمارے ملک سے نکل جائو۔ اے داعش، اے طالبان! ہم مسلمان ہیں، ہمیں تمہیں مسلمان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کرے افغان مسلمان بھی سمجھ لیں کہ ڈرگز فروخت کرنے سے وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں خراب کر رہے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ افغانوں نے تو کبھی غلامی قبول نہیں کی ہے۔ مغلوں، تاتاریوں سب کو اپنے ملک سے نکال پھینکا۔ ٹرمپ جیسے بدحواس آدمی کی گیدڑ بھبکیاں سمجھیں۔ اپنے معدنیات سے مالامال ملک کی اہمیت جانیں۔ ہندوستان کی وقتی مدد کو دائمی نہ سمجھیں۔ آپ چاروں جانب سے بند سرحدوں والا ملک ہیں۔ ان سرحدوں میں ہندوستان شامل نہیں ہے۔ وار لارڈز! تم لوگوں کو بھی اسی طرح استعمال کر رہے ہیں جیسے پاکستان میں وڈیرے اور جاگیردار استعمال کرتے ہیں۔
مگر سنے گا کون کہ اس وقت پاکستان میں مردم شماری کی غلطیاں واشگاف کی جا رہی ہیں۔ یہ معمّہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک طرف آبادی کے بڑھنے کی خبر سنائی جا رہی ہے اور دوسری طرف کراچی کے مقابلے میں لاہور کی آبادی کو دگنا ہوتے دکھایا جا رہا ہے۔ پھر لاہور ہی کیا کراچی اور اسلام آباد میں بے پناہ کچّی آبادیاں ہیں جن میں سے بیشتر افغان بستیاں ہیں۔ کراچی میں بھی میں نے جنوبی پنجاب سے جانے والے مزدوروں کی بستیاں دیکھی ہیں۔ ممکن ہے ان کے آئی ڈی کارڈ، دونوں جگہوں پر بنے ہوں۔ بلوچستان میں افغانی بستیاں باقاعدہ گھروں، بازاروں اور مسجد پر مشتمل ہیں۔ یہی حال پشاور کا ہے۔ چونکہ میں نے خود یہ کچّی آبادیاں آواران اور کیچ تک میں دیکھی ہیں۔ نہیں معلوم ان کو پاکستان کی آبادی میں شامل کیا گیا ہے۔ سب کو یاد ہے تین کروڑ افغان مہاجرین میں سے ابھی تک صرف 70لاکھ واپس گئے ہیں، باقی سوا دو کروڑ کو بھی شامل کریں۔ خدا خدا کر کے مردم شماری ہوئی۔ اب اس سے کوئی سیاسی پارٹی تو کیا میرے جیسے گائوں گائوں گھومنے والے قبول نہیں کر رہے کیونکہ آبادی بڑھانے میں صرف اسلامی ملک ہی آگے ہیں۔ جاپان جیسے ملک میںتو ایک خاندان میں ایک بچّے کو بھی غلط سمجھ رہے ہیں۔ اب 57فی صد بڑھی آبادی کو تقسیم کر کے دیکھیں۔

تازہ ترین