• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب شہید بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم تھیں تو انہوں نے تھر سے کوئلہ نکال کر ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے کیٹی بندر میں اس کوئلے پر کئی بجلی گھر بنانے اور کیٹی بندر کو جدید بحری بندر گاہ بنانے کا پروگرام شروع کیا تھا‘ اس وقت سے میں اس پروجیکٹ کے بارے میں تفصیلی تحقیق کرنے کے بعد مسلسل کالم بھی لکھتا رہا ہوں، ایک مرحلے پر میں نے تھر کے کوئلے کو ’’کالا سونا‘‘ لکھنا شروع کردیا تھا،یہ میں نے لکھنا تو شروع کیا تھا مگرسچی بات یہ ہے کہ اس وقت اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ کوئلہ واقعی سندھ اور پاکستان کے لئے سونا ثابت ہوسکتا ہے، شہید بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد میاں نواز شریف کے اقتدار میں آتے ہی کیٹی بندر کے پروجیکٹ کو سبوتاژ کردیا گیا۔ بہرحال پی پی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد تھر کے کوئلے سے تھر کے اندر ہی بجلی بنانے کا پروجیکٹ شروع کردیا گیا، اس عرصے کے دوران اس بار بھی اس پروجیکٹ کے لئے کئی مشکلات پیدا کی گئیں اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس بار بھی یہ پروجیکٹ سبوتاژ ہوجائے گا مگر بہرحال یہ پروجیکٹ شروع ہوگیا، کوئی دو تین سال پہلے بھی اس پروجیکٹ کی سائٹ کا دورہ کیا تھا، مگر اب جب حکومت سندھ کی دعوت پر کراچی کے صحافیوں کی ایک بڑی ٹیم کے ممبر کے طور پر سندھ کے وزیر اعلیٰ کے میڈیا کنسلٹنٹ رشید چنہ کی قیادت میں منگل کو سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی طرف سے مائننگ اور پاور پروجیکٹس کا 50 فیصد کام مکمل ہونے پر ان کی صدارت میں ہونے والی تقریب کی کوریج کے لئے اتوار کو تھر پہنچے تو تھر کی شاندار صورتحال دیکھ کر حیرت سے آنکھیں کھل گئیں، فی الحال اس سلسلے میں دو پہلوئوں کا ذکر کروں گا مگر اس کالم میں اسلام کوٹ کے نزدیک پوسٹ پرتعینات اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں کی اس ٹیم سے کئے جانے والے ناروا سلوک کا ذکر بھی کروں گا۔ اس ٹیم کے اکثر صحافیوں کا تاثر تھا کہ صحافیوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک اگر جاری رہتا ہے تو شاید اس بار اس پروجیکٹ کے لئے رکاوٹ یہ رویہ نہ بن جائے ۔ صحافیوں کے ساتھ اس ناروا سلوک کا ذکر کرنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ تھر میں آنے والی دو اہم تبدیلیوں کا ذکر کروں‘ ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس بار مسلسل بارشوں کی وجہ سے تھر کا نقشہ ہی تبدیل نظر آیا، میں اس سے پہلے بھی بارشوں کے بعد تھر کا دورہ کرتا رہا ہوں، اس وقت بھی بارشوں کے بعد تھر سر سبز نظر آتا تھا مگر اس بار تو تھر کے سرسبز ہونے کی مثال نہ صرف تھر میں مگر شاید دنیا بھر میں پیش نہیں کی جاسکتی،اس بار تو تھر واقعی جنت بن چکا تھا، ہماری ٹیم کے اکثر وہ صحافی جو اس سے پہلے بھی بارشوں کے بعد تھر آچکے تھے ان سب کا تاثر تھا کہ اب کی بار تھر اتنا سرسبز اور شاداب نظر آیا تھا کہ سوئٹزر لینڈ اور جنیوا بھی شاید اس کا مقابلہ نہ کرسکیں،سندھ حکومت کو ایسے تھر سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہئے اگر تھر میں سیاحوں کی دلچسپی کی سہولتیں فراہم کی جائیں اور اس کے سارے علاقے کو ترقی دی جائے تو یہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لئے دنیا بھر میں پہلے نمبر کا پرکشش علاقہ بن جائے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ سندھ حکومت تھر ٹور ازم کا ایک الگ ادارہ بنائے اور سیاحوں کے لئےساری سہولتیں فراہم کرنے کا بندوبست کرے،اس کے علاوہ فی الحال اس سلسلے میں سندھ حکومت کو جو اقدامات کرنے چاہئیں ان میں اسلام آباد سے میڈیا کی ایک ٹیم کو مدعو کرکے تھر کی کوریج کی جائے اور پاکستان میں بین الاقوامی میڈیا کے جو نمائندے متعین ہیں ان کی ٹیم کو بھی تھر کا دورہ کرایا جائے، اس کے بعد کراچی میں مقیم بیرونی ملکوں کے ڈپلومیٹس پر مشتمل ٹیم کو بھی تھر لایا جائے اور ان کو دو تین دنوں تک یہاں سرسبز تھر کا دورہ کرایا جائے۔ اب میں تھر میں نظر آنے والی دوسری تبدیلی کا ذکر کروں گا،ہمیں تو اس کا احساس ہی نہیں تھا اور شاید اب بھی نہیں ہے کہ تھر کے کوئلے سےبجلی بنانے کے پروجیکٹس کے نتیجے میں تھر اتنی ترقی کرے گا اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو شاید کچھ عرصے کے بعد تھر پاکستان تو کیا شاید اس ریجن کا سب سے ترقی یافتہ علاقہ بن جائے گا، ماضی میں جو لوگ تھر جاتے رہے ہیں ان کو پتہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تھر میں راستے نہیں تھے‘ وہاں ریت پر کیکڑے میں سواری کی جاتی تھی مگر اب کی بار جب ہم اسلام کوٹ اور ننگر پارکر تک گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ عالیشان ترین سڑکیں بھی بنائی گئی ہیں، صحافیوں کی اس ٹیم کے اکثر ممبران اس بات پر متفق تھے کہ ایسی عالیشان سڑکیں اب تک پاکستان کے کسی شہر اور علاقے میں موجود نہیں، اسلام کوٹ آنے سے پہلے جب ہم تھر کے پہلے شہر مٹھی پہنچے تو میں نے مٹھی میں اہم تبدیلی محسوس کی، وہاں کی سڑکیں تو کیا گلیاں بھی اچھی بنائی گئی ہیں اور اتنی صاف ہیں کہ بڑی گاڑیاں اور کوسٹر جس کے ذریعے ہم صحافی سفر کررہے تھے آسانی سے ان گلیوں سے گزر رہی تھیں۔اس کے علاوہ نہ صرف مٹھی کے اسپتال میں صحت کی جدید سہولتیں فراہم کی گئی ہیں جن کا صحافیوں کو معائنہ کرایا گیا مگر بعد میں ایک اور اسپتال بھی صحافیوں کو دکھایا گیا جو پی پی ایچ آئی کی طرف سے تعمیر کیا گیا ہے جس میں بھی کئی جدید سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، بعد میں صحافیوں کو مٹھی میں قائم کئے گئے لڑکیوں کے ایک اسکول کا بھی معائنہ کرایا گیا ، اس میں 500 لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں اورجن میں مسلمان لڑکیوں سمیت ہندو لڑکیاں بھی شامل ہیں، بعد میں ہمیں مٹھی میں قائم کئےجانے والا پاور پلانٹ دکھایا گیا، یہ پلانٹ دن کو سولر انرجی پر چلتا ہے اور اس سے بننے والی بجلی پانی صاف کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا گیا کہ رات کو اس بجلی سے پانی کا پلانٹ چلایا جاتا ہے جو ملک کے دیگر حصوں کی طرح مٹھی کے علاقے کو بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ بہرحال اگر سولر انرجی سے پیدا ہونے والی بجلی کو ذخیرہ کرنے کے انتظامات کرلئے جائیں تو مذکورہ پلانٹ سے رات کو بھی سولر انرجی سے تیار کی گئی بجلی سے مٹھی کے لوگوں کو پانی فراہم کیا جاسکتا ہے، بعد میں صحافیوں کی ٹیم کو مٹھی شہر سے کچھ فاصلے پر زیر تعمیر کیڈٹ کالج لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ یہاں تھر کے باشندوں کو نہ صرف تعلیم فراہم کی جائے گی بلکہ تھر کے مائننگ اور پاور پلانٹس میں کام کرنے کے لئے مطلوبہ فنی تربیت بھی دی جائے گی۔ منگل کو صحافیوں کو اسلام کوٹ کے ہوائی اڈے پر لے جایا گیا جہاں سندھ کے وزیر اعلیٰ کا جہاز لینڈ کرنے والا تھا، یہ بھی کوئی چھوٹی خوشخبری نہیں ہے کہ اسلام کوٹ کا ہوائی اڈہ جو کافی عرصے سے زیر تعمیر تھا اس کا رن وے اس حد تک تیار ہوگیا ہے کہ اب ہوائی جہاز لینڈ کرسکتے ہیں،وزیر اعلیٰ کے ساتھ ایک اور ہوائی جہاز بھی آیا تھا جس کے ذریعے کراچی سے کچھ سرمایہ دار، سینئر صحافیوں اور ٹیکنو کریٹس کو لایا گیا تھا، ہمیں بتایا گیا کہ اس سے پہلے صرف ایک بار کچھ دن پہلے ایک ہوائی جہاز نے لینڈ کیا تھا لہٰذا اب ہوائی جہاز اسلام کوٹ کے ہوائی اڈے پر لینڈ کرسکتے ہیں،ہوائی اڈہ قائم ہونے سے تھر میں ہونے والی ترقی کی رفتار تیز تیزہونے کی توقع کی جارہی ہے۔

تازہ ترین