• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں چین میں منعقدہ پانچ ملکوں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے اقتصادی اتحاد برکس کے نویں سربراہی اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی کے حوالے سے کئی جماعتوں کا ذکر کیا گیا جسمیں لشکر طیبہ اور جیش محمد بھی شامل ہیں۔ بھارت کے سفارتی اور صحافتی حلقے اس کو اپنی زبردست کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان دونوں کشمیر نواز گروپوں کو اقوام متحدہ اور کئی مغربی ممالک نے11ستمبر2011کے حملے کے بعد بدلتی صورتحال کے پیش نظر دہشت گرد جماعتوں کی فہرست میں شامل کردیا تھا۔ یہ جماعتیں مبینہ طور بھارت میں دہشتگردی کی کئی ہائی پروفائل وارداتوں میں ملوث ہیں جن میں دسمبر 2001میں نئی دہلی میں واقع بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ بھی شامل ہے جسکے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ بھارت نے اپنی لاکھوں افواج کو پاکستانی سرحد پر لا کھڑا کر دیا جسکے جواب میں پاکستان کو بھی اپنی افواج کو متحرک کرنا پڑا تاکہ بھارتی دھمکیوں کا مؤثر تدارک کیا جاسکے۔ امریکہ کے بے پناہ دبائو کے نتیجے میں بالاخر بھارت کو اپنی فوج واپس بلانا پڑی مگر ساتھ ہی پاکستان کو بھی انتہا پسند عسکری گروپوں سے نمٹنے کا کھلے عام اعلان کرنا پڑا۔
برکس اعلامیہ میں لشکر اور جیش کی شمولیت گزشتہ سال کے سربراہی اجلاس کے اعلامیے سے قدرے مختلف ہے۔ اس اجلاس میں جو بھارتی شہر گوا میں منعقد ہوا تھا میں میزبان ملک کی کوششوں کے باوجود اعلامیے کے متن میں چینی مخالفت کیوجہ سے ان تنظیموں کا نام شامل نہیں ہو سکا تھا۔ لہٰذا اس سال کا اعلامیہ بھارت کیلئے تسلی بخش ہے مگر اس کو کسی بڑی سفارتی کامیابی سے تعبیر کرنا دیومالائی کاریگری کے زمرے میں آتا ہے۔ ہاں یہ اہمیت ضرور ہے کہ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب بھارت میں سرکاری سرپرستی میں ہندو دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور آئے روز مسلمانوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مزید برآں گزشتہ سال سے بھارتی اہلکار بشمول وزیراعظم نریندرا مودی مسلسل پاکستان کو دہشت گردی کے ذریعے تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور بلوچستان سمیت کئی علاقوں میں دہشت گرد عناصر کی امداد اور حمایت کا وعدہ کیا جس سے یہ تاثر گہرا ہوگیا ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ1971کی جنگ میں پاکستان کو توڑنے کیلئے یہ حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی تھی۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ برکس اعلامیہ میں برطانیہ میں قائم حزب التحریر کو بھی شامل کردیا جو عالمی سطح کی شدت پسند جماعت ہے اور خلافت اسلامی کیلئے کام کرنے کا دعوی کرتی ہے مگر برطانوی سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ گہرے روابط رکھتی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ شاید اعلامیے میں دہشت گردوں سے متعلق عبارت کا اندراج آخری لمحے میں کردیا گیا ہے جو ان بھارتی صحافتی دعوئوں کے برعکس ہے کہ یہ کامیابی کئی مہینوں کی سفارتی کاوشوں کا ثمر ہے۔ بہرحال جو بھی ہو اس فہرست میں حزب التحریر کی شمولیت سے اسکی قدر و منزلت کافی متاثر ہوئی ہے۔
اس فہرست میں طالبان کو بھی شامل کیا گیا ہے جس سے لگتا ہے کہ کوئی طاقت برکس پلیٹ فارم کو 11/9 کے فورا بعد کی دنیا میں گھسیٹ رہی ہے جہاں امریکہ اپنی خواہشات کے مطابق بلاشرکت غیرے دنیا پر اپنی پسند ناپسند تھوپتا آرہا تھا۔ افغانستان میں امریکی ناکامیوں اور مسلسل متضاد پالیسیوں سے قطع نظر طالبان ایک اہم سیاسی حقیقت ہیں جنہیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ غیر ملکی قبضے کے خلاف ایک حق پر مبنی جنگ لڑ رہے ہیں اور اسمیں انہیں افغانستان کے بیشتر دیہی علاقوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ وہی اقوام متحدہ جس نے امریکی دبائو میں انکو دہشت گردقرار دیا تھا اسی نے انکو اس فہرست سے نکال کر انہیں افغانستان کے ایک اہم فریق کے طور تسلیم کرتے ہوئے سیاسی عمل میں انکی شرکت کو قبول کیاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ کی 1970ء کی پالیسیوں کے نتیجے میں مسلم معاشروں میں بے پناہ مسائل پیدا ہوئے۔ 11/9کے فوراً بعد بدلتے منظرنامے نے پاکستان کو ان معاملات کی جانب سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کردیا اور شومئ حالات کہ یہ موقع بھی امریکی دباؤ کی وجہ سے مل گیا جو اصل میں ان مسائل کی جڑ تھا، پالیسی کی یہ اچانک اور یکسر تبدیلی پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج تھی جس میں محدود معاشی وسائل، کاؤنٹر انسرجنسی کے ماہرین کی کمی اور انٹیلی جنس جمع کرنے کے طریقہ کار کی غیرفعالیت جیسے بے پناہ مسائل کا سامنا تھا۔ تاہم پچھلے چار یا پانچ سالوں میں جب سے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی دائرہ کار سے نکل کر آزادانہ طور پر فیصلے کرنے شروع کئے ہیں اس کو قابل ذکر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ پاکستانی فوج نے فاٹا سے لیکر بلوچستان اور کراچی سے لیکر پنجاب کے مرکزی علاقوں سے دہشت گردی کا صفایا کردیا ہے جو بلا شبہ دنیا میں انسداد دہشت گردی کی کامیاب ترین کاوشوں میں سے ہے۔
پاکستانی دعوؤں کے مطابق پاکستان میں متحرک اکثر دہشت گرد گروپ بھارتی انٹیلی جنس اداروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس بھارت کے اعلی انٹیلی جنس ایجنسی را کے مبینہ حاضر سروس افسر کلبھوشن یا دیو کی گرفتاری کے بعد ان دعوؤں کو مزید تقویت ملی اور یہ حقیقت بھی کھل گئی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ کلبھوشن یادیو نے پاکستان میں اپنے مشن کے حوالے سے کئی اعترافات کئے جس سے نہ صرف بھارت کو بین الاقوامی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ دہشت گردی کے حوالے سے ہندوستانی بیانیے کو بھی کافی زک پہنچی۔ برکس اعلامیے نے اگرچہ تحریک طالبان پاکستان کو دہشت گرد گروپ کے طور پر تسلیم کرکے بعض پاکستانی خدشات کا بھی احاطہ کیا ہے لیکن مجموعی طور پر اس اعلامیے میں تساہل سے کام لیا گیا ہے۔
اگرچہ پاکستان کو بار بار یہ باور کرایا جارہا ہے کہ اب دشت گردی کا زمانہ نہیں رہا اور یہ کہ اچھے اور برے دہشت گرد کی تفریق کو ختم کرنا ہوگا مگر امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی اپنی اسٹریٹجک وجوہات کی بناپر تاحال ’’اچھے دہشت گردوں‘‘ کی مدد اور معاونت جاری رکھے ہوئے ہیں جسکی تازہ مثالوں میں کرد دہشت گرد تنظیم پی وائی ڈی کے علاوہ شام میں درجنوں خوفناک دہشت گرد گروپوں کے علاوہ افغانستان کے بیسوں وار لارڈز شامل ہیں۔ شاید اسی تناظر میں پاکستانی ریاست نے بھی بعض تنظیموں کے حوالے سے تذبذب والی پالیسی اپنائی ہوئی ہے مگر اس سے ملک میں عدم اعتماد کی فضا برقرار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں کافی مقبول ہے اور کشمیریوں کی ایک قابل ذکر تعداد ا ن کو بھارتی فوج کی جارحیت کے خلاف ایک امید کے طور پر دیکھتی ہے مگر اس قسم کی امیدیں مزید عدم استحکام کا باعث ہوں گی اور مسلسل عسکریت پسندی کے ساتھ منسلک خطرات اتنے زیادہ ہیں کہ کسی کا بھی غیر ریاستی عناصر پر تکیہ کرنا ایک بہت بڑی اسٹریٹجک غلطی ہوگی۔
پس نوشت:
آزادی کشمیر کے لئے لڑنے والا سب سے بڑا ایک مزاحمتی گروپ فہرست میں شامل نہیں ہے جس سے کشمیری آزادی پسندوں کو ضرور کچھ راحت محسوس ہوئی ہوگی۔ مگر وقت آگیا ہے کہ عسکریت کے علاوہ بھی مختلف زاویوں سے سوچا جائے۔ میری ذاتی رائے میں کامیاب جدوجہد کیلئے مزاحمتی عسکریت پسندی کے علاوہ طویل مدتی سیاسی امکانات پر سنجیدہ غور و فکر کی اشد ضرورت ہے۔

تازہ ترین