• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرا دیکھ کے!
سہ فریقی مذاکرات مکمل، داعش کا خاتمہ کیا جائے گا پاکستان افغانستان اور امریکہ کا عزم۔ خدا کرے کہ یہ سہ فریقی عزم آگے بڑھے، داعش ہو یا کوئی اور دہشت گرد تنظیم آسمان سے نہیں ٹپکی ان میں کسی نہ کسی کا ہاتھ رہا ہے، اور اب بھی ہے، یاد رکھیں مذہب کسی بھی بڑے ظلم کے لئے محفوظ ترین پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کوئی بھی مذہب کسی ایک انسان کے قتل کی بھی اجازت نہیں دیتا، چہ جائیکہ آج انسان تھوک کے حساب سے مارا جا رہا ہے، کیا روہنگیا میں مسلمانوں کا قتل عام دہشت گردی نہیں، کیا فلسطین میں یہودیوں کا ظلم دہشت گردی نہیں؟ کیا مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا قتل عام کرنا دہشت گردی نہیں؟ دہشت گردی کے حوالے سے یہ سب کے سب داعش ہی ہیں، کیونکہ دہشت گردی انسانوں کی انسانوں کے خلاف ایک سازش ہے اسے داعش کہیں یا کوئی اور نام حقیقی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے چاہے وہ داعش کرے یا کوئی اور، اور اس ضمن میں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دہشت گردی مالی، اور گولہ و بارود کی فراہمی اور کسی گاڈ فادر کے بغیر نہیں ہو سکتی، ان سارے عوامل کو تلاش کر کے ان کا قلع قمع کرنا ہی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے، ورنہ یہ جو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اتحاد و مذاکرات کا عمل انجام دیا جاتا ہے یہ فریقوں کے اپنے مقاصد تو پورا کر سکتا ہے، دہشت گردی کے خاتمہ کے کام نہیں آ سکتا، بہرحال یہ سہ فریقی مذاکرات جو داعش کے خاتمے کے لئے کئے گئے خوش آئندہیں، ہم البتہ یہ ضرور کہیں گے پاک افغان تعلقات ماضی کے ڈھب پر آ جائیں، امریکہ خدا جانے کس مار پر ہو۔
٭٭٭٭
عوام کی خود کشی و ظالموں کی فتح
گجرات، قبضہ گروپ کا ستایا 50سالہ شخص 5بچوں سمیت خود کشی کرنے کے لئے 200فٹ بلند پانی کی ٹینکی پر چڑھ گیا۔ یہ واقعہ تو المناک ہے، تشویشناک بھی اگر قبضہ گروپ اسی طرح بے لگام بے بس عوام کی پراپرٹی پر ناجائز قبضہ کرتے رہے اور کسی با اختیار ادارے نے نہ روکا تو ایک دن سارے مظلوم عوام کھمبوں، بانسوں اور ٹینکیوں پر فریضہ خود کشی ادا کرنے چڑھ جائیں گے ویسے مافیاز نے تو مافیاز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنی، بے بس عوام ہمت کریں اور مافیاز کی جائیدادوں، محلات پر قابض ہو جائیں، خود کشی کرنے سے تو جو کام مافیا نے کرنا تھا وہ متاثرین خود ہی انجام دے دیں گے، یہ تو ظالم غاصب کی بہت بڑی مدد ہو گی، قوم کے مظلومین ایک اتحاد قائم کریں اور ظالموں کے خلاف باقاعدہ عدالتوں میں مقدمات دائر کریں، اگر اتفاق و اتحاد سے قانون کے دائرے میں رہ کر قبضہ گروپوں کے خلاف ایک ملک گیر مہم شروع کر دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ انصاف نہ ملے، عدلیہ آزاد ہے اور عدل کر رہی ہے، قبضہ گروپ کے خلاف جب تک اجتماعی تحریک نہیں چلے گی ایسا ہی چلے گا، ایک شہری سے قبضہ مافیا کی زیادتی کو تمام شہریوں کی جان و مال پر حملہ تصور کر کے یکجا ہو کر باجماعت عدالتوں کا رخ کیا جائے۔ ہمارا شاید قصور یہ ہے کہ اپنی بہتری، اپنے لئے انصاف اور ظالموں کے قلع قمع کی توقع حکمرانوں سے کرتے ہیں جبکہ وہ ان دنوں بہت زیادہ مصروف ہیں، اور ان کے بارے حافظؔ کا یہ شعر بھی جزوی مطابقت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؎
واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند
چوں نجلوت می روند آں کارے دیگر می کنند
(واعظ ، منبر و محراب پر بیٹھ کر کیا کیا جلوے دکھاتے ہیں، مگر جب وہ اپنی تنہائیوں میں جاتے ہیں تو دوسرے کام کرتے ہیں)
٭٭٭٭
اللہ جانے کیا ہو گا آگے؟
وطن عزیز کے اخبارات اور چینلز اسکرینوں کو دیکھ کر ایک باہوش پاکستانی کے ہوش اڑ جاتے ہیں، ابہام اور بے یقینی انسانی ذہن کا گھیرائو کرتی محسوس ہوتی ہے، حکومت، ریاست، سیاست، مستقبل بارے بزبان غالب یہی کہا جا سکتا ہے، ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘ کب یہ دھند چھٹے گی کب رات ڈھلے گی کب سحر ہو گی؟ مگر نہ جانے کیوں اب ایک امید سی ہے کہ کچھ مزید دیر ہو گی اندھیر باقی نہیں رہے گا، ایک بات سب کو سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک حکمران، عوام کے محافظوں سے اپنے کام لیتے رہیں گے وہ عوام پر ظلم کو روکیں گے اور نہ خود ظلم کرنے سے رکیں گے، اگر معاشرے میں رشوت دینے والے رہیں گے تو رشوت لینے والوں کا خاتمہ نہ ہو گا، ایک کام رشوت کے ذریعے کرا کے ہم اپنے پورے معاشرے کا کام خراب کر دیں تو پھر برائی کا تسلسل جاری رہے گا بلکہ وہ بڑھے گا اللہ کرے کہ قومی معاملات کسی قول فیصل تک پہنچیں، ہمارے زوال کے ذمہ داروں کی کھیپ کی جگہ ایسے افراد لے لیں جو امانت و صداقت سے حکمرانی کریں، قومی دولت کی لوٹ مار کا سلسلہ بند ہو ملک میں کچھ آئے یہاں سے کچھ جائے نہیں، بہرحال جو بھی کرنا ہے یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ دنیا خالق کائنات نے انسان کی کارکردگی کے لئے بنائی ہے۔ اپنی کارکردگی کے لئے نہیں، اور ہمارے عمل پر ہی جزاء و سزا کا دارومدار ہے، یہاں بھی وہاں بھی، یہ تصور یا سوچ درست نہیں کہ کیا آسمان سے فرشتے اتر کر یہاں حکومت چلائیں گے، یہ راہِ فرار ہے، اور ظلم و زیادتی کو تسلیم کرنا ہے، کہتے ہیں ’’خانہ خالی رادیواں می گہرند‘‘ خالی گھر میں جنات بسیرا کر لیتے ہیں اگر ہم حکمرانی کے ایوانوں کو اچھے افراد کی دسترس سے دور رکھیں گے تو ان میں ’’جن بھوت‘‘ مقیم ہوں گے، سیاست سفید دھن والوں کے پاس آئے گی تو ہر سو اجالا ہو گا۔
٭٭٭٭
اپنا گھر ٹھیک کرنے کی اجازت ہے
....Oمراد علی شاہ:آئی جی معاملے پر برف نہیں پگھلی، بحالی کا فیصلہ چیلنج کریں گے،
ہم پر حکمران اور حکمرانوں پر ان کی اَنا راج کرتی ہے۔
....Oفاٹا اصلاحات پر اے پی سی تقسیم، فضل الرحمان اور اچکزئی کی مخالفت۔ انضمام کے اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار۔
اب تو ہر مرد حضرات کو پہچان لینا چاہئے!
30....Oسالہ معذور کے جسم میں ہوا بھرنے والا ملزم گرفتار۔
جرم کی یہ نئی نویلی واردات، جرم ثابت ہو تو اسے سزا کے طور اس میں ہوا بھری جائے، تاکہ قانون قصاص پر بھی کبھی کبھی عمل ہو جائے۔
12....Oسالہ بچی سے زیادتی، پولیس مرکزی ملزم سے مل گئی،
پولیس ویسے بوقت ضرورت ملے نہ ملے ملزموں سے ملنے میں دیر نہیں لگاتی۔
....Oوزیر خارجہ خواجہ آصف:اپنا گھر ٹھیک کرنے کے بیان پر قائم ہوں۔
سارے حکمران اپنا گھر ہی تو ٹھیک کرتے آئے ہیں کبھی کسی نے روکا، وزیر خارجہ نے بجا فرمایا وہ اپنا گھر ضرور ٹھیک کریں کون روکتا ہے۔

تازہ ترین