• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان پاکستان کا ایک پُرفضا، پُرامن اور کئی قدیم تہذیبوںکا گہوارہ ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے یہ منصوبہ داخلی دروازے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے، دس اضلاع پر مشتمل یہ انتظامی صوبہ اپنے دامن میں قدرتی حسن، جھیلیں، جھرنے، آبشاریں سمیٹے دُنیا کی نگاہوں کا مرکز بن چکا ہے، راکاپوشی کی خوبصورت چوٹی ہو یا دُنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’’کے ٹو‘‘ ساری دُنیا کے لئے کشش رکھتی ہے، اس سال کوئی 17 لاکھ سیاح اِس سرزمین کی سیاحت کے لئے آئے جبکہ اِس کی آبادی پہلی مردم شماری کے مطابق 8 لاکھ سے زیادہ تھی جبکہ اِس مردم شماری میں اِس کی آبادی شاید 15 لاکھ کے لگ بھگ پہنچ جائے۔ پھولوں سے لدی وادیاں اور سبزا اِس کے قدرتی حسن کو چارچاند لگا دیتا ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سےسڑکوں کا جال پھیلا دیا گیا ہے اور موٹروے کےطرز کی سڑک گلگت سے آگے تک جا چکی ہیں۔ جب ہم 1984ء میں یہاں آئے تھے مگر منظر اب بدل گیا ہے، سڑکوں کے جال نے وادیوں تک رسائی حاصل کرا دی ہے، گلگت سے خنجراب جو پاک چین سرحد ہے تک کوئی 18 ٹنلرز بنائی جا چکی ہیں، 5 سرنگیں تو پہاڑ کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں، جن کی لمبائی ساڑھے سات کلومیٹر ہے، اُن کو دیکھ کر لگا کہ سی پیک کی تعمیر کا عزم کتنا مضبوط ہے کہ عطا آباد جھیل بن جانے کے بعد سی پیک کی راہ میں بڑی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور 2010ء میں یہ جھیل پہاڑ کا بڑا تودہ گرنے سے معرضِ وجود میں آئی اور جہاں وہ چٹان گری وہاں آبادی تھی، جانی نقصان بھی ہوا، چین اور پاکستان کو ملانےوالی سڑک بھی اِس جھیل عطا آباد میں ڈوب گئی، مگر پھر پہاڑی چٹانوں کو کاٹ کر خوبصورت اور پائیدار پانچ سرنگ سڑکیں بنائی گئیںجو فن تعمیر کا نمونہہیں۔ یہ جھیل سیاحوں کے لئے تفریح کا سامان مہیا کرتی ہے جو تقریباً 350 فٹ گہری ہے، یہاں پانچ ٹنلرز جن کی لمبائی ساڑھے سات کلومیٹر ہے، گلگت سے اِس جھیل اور کئی میل اُس سے آگے بھی پھلوں اور سبزیوں کے باغات ہیں، انتہائی میٹھے سیب اور خوبانی سے لدے درخت لب سڑک دیکھے جاسکتے ہیں، لہراتی ہوئی سڑکیں اور وہ بھی موٹروے کے انداز کی، سفر کو آسان بنا دیتی ہیں، پھر ہم نے دیکھا کہ آپٹیکل فائبر کیبل خنجراب سے گلگت تک بچھایا جارہا ہے، کچھ حصہ بچھایا جا چکا ہے اور کچھ پر کیبلز کو جوڑا جارہا تھا، راستے میں کیبل بچھانے والی ٹیموں سے بات چیت کی جن میں انجینئر سبطین اور ظفر شامل تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ کیبل 48 آپٹیکل سسٹم میں ہر ایک جوڑی میں ایک ملین سے زیادہ ٹیلیفونک گفتگو کرنےکی صلاحیت رکھتی ہے، اُن کا خیال ہے کہ جب یہ بن جائے گا تو امکان ہے کہ اس میں خلیجی ممالک کو بھی شامل کرلیا جائے اور اُن کو یہ سہولت فراہم کی جاسکتی ہے اُن کا خیال تھا کہ دسمبر تک کیبلز بچھانے کا کام مکمل ہوجائے گا، مواصلاتی حوالے سے یہ بڑی پیش رفت قرار دی جاسکتی ہے، خنجراب پہنچنے کے بعد وہاں کے کمانڈر نے ہماری پذیرائی کی اور چین کے اندر 8 کلومیٹر تک جو چینی سرحدی پولیس کا چینی طرز کا کیمپ تھا وہاں تک ہمیں لے گئے، جہاں چینی کمانڈروں نے ہمارا استقبال کیا، وہاں پاکستان، چین دوستی زندہ باد کا ایک بڑا سا بینر آویزاں تھا اور پاکستان کی طرف بھی ایسا ہی تھا، اگرچہ پاکستان کی طرف سے ہماری قراقرم فورس کو سہولت دستیاب نہیں تھی، یہ دُنیا کی اونچی سرحد کہلائی جاتی ہے جو سطح سمندر سے 16002 فٹ کی بلندی پر واقع ہے، یہاں نیشنل بینک کا اے ٹی ایم لگا ہوا ہے جو پیسے تو آپ کے کارڈ سے کاٹ لیتا ہے مگر پیسے نہیں دیتا۔ نیشنل بینک نے دُنیا کے بلند ترین مقام پر اے ٹی ایم لگا کر جو امتیاز حاصل کیا تھا وہ حاصل نہیں کرسکا۔ اس دورے میں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان سے ملاقات ہوئی، وہ ایک نوجوان، پُرجوش اور دانا شخص ہیں، اُن کی اور اُن کے بھائی کی پہلی کوشش رہی ہے کہ مختلف فرقوں، مذہبوں، لسانی گروپوں میں بٹے لوگوں کو مسلم لیگ (ن) کے پرچم تلے جمع کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے 15 ارکان منتخب ہو کر اسمبلی میں آئے اور ٹیکنوکریٹ کی دو نشستیں اور چار خواتین کی نشستیں ملنے کے بعد وہ 33 کے ایوان میں واحد اکثریتی پارٹی بن کر وزیراعلیٰ بن گئے۔ پھر حکومت پاکستان سے سی پیک کی مد میں 102 ارب روپے کے منصوبے حاصل کرلئے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے تاجر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں مگر ہمارے پاس فیکٹریاں تو نہیں تھیں، اس لئے ہم نے حکومت سے ایسے پروجیکٹ بنوائے کہ جس سے یہاں کےعوام کو فائدہ پہنچے، چنانچہ اِس میں کامیاب رہے اور اب ہم گلگت لنترروڈ کی تعمیر کررہے ہیں۔ واضح رہے لنتر ایک پُرفضا مقام ہے، اسکیٹنگ کے لئے انتہائی موضوع ہے اور ذوالفقار علی بھٹو اکثر راتیں یہاں گزارتے تھے اور سارا فائل ورک مکمل کر لیتے تھے، اس کے علاوہ گلگت اسکردو سڑک کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے، یہ سڑک انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس پر ایک ایسا پل تعمیر کیا جارہا ہے جو کئی سو ٹن کے سامان کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہوگا ، یہ سڑک نہ صرف گلگت اور اسکردو کو ملاتی ہے بلکہ اسٹرٹیجک زاویئے سے بھی بہت اہم ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ گلگت میں خفیہ کیمروں کا جال بچھا کر اِس کو محفوظ بنانے کی کوشش کی ہے، اس طرح یہ پاکستان کا تیسرا شہر ہے جس کو یہ سہولت دستیاب ہوگئی ۔ سی پیک کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں سے تین راستوں کی تعمیر کا منصوبہ ہے جو مختلف راستوں سے پاکستان کے میدانی علاقوں کو اور تجارتی ٹریفک کو گوادر لے جائے گی، ایک تو پرانی شاہراہ ریشم ہے، دوسرا راستہ وادی کاغان سے ہوتا ہوا گزرے گا اور حالت تیاری میں ہے اور تیسرا چترال سے سوات پہنچے گا اور وہاں سے گوادر یا پاکستان کے دوسرے حصوں تک جائے گا۔ اس طرح گلگت آنے کے بعد تجارتی قافلوں کو تین گزر گاہیں مل جائیں گی جہاں سے وہ بھاری سازوسامان گوادر یا پاکستان سے اندرونی علاقوں تک لے جاسکیں گے یا پاکستان سے چین جاسکے گا، یہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ کا سب سے آسان، سستا اور محفوظ راستہ ہوگا۔ وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ تمام وادیوں تک رسائی کے لئے سڑکیں بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس کے علاوہ کئی فائیو اسٹار ہوٹلوں کی تعمیر کی اجازت دے چکے ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام سے جب ہم نے پوچھا تو اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیں اپنے اندر کیوں شامل نہیں کرتا، اس پر اگرچہ کام ہورہا ہے کہ پاکستان کا جو عالمی موقف ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو اور یہ مسئلہ حل ہو جائے، اس لئے سرتاج عزیز کی رہنمائی میں جو کمیٹی بنی تھی، اُمید ہے کہ جلد فیصلہ ہوجائے گا، تاجروں کو شکایت ہے کہ ضلع سست میں جو ڈرائی پورٹ بنی ہے وہاں بہت رشوت لی جاتی ہے، ہمارے خیال میں یہ انتظامی صوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے وزیراعلیٰ اور لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہاں کے پانی کی روانی سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی بنا سکتے ہیں، خود گلگت شہر میں 5 ہزار میگاواٹ بجلی فاضل ہے، ہنزہ کو صرف دو ہزار واٹ بجلی چاہئے جو گرڈ نہ ہونے کی وجہ سے فراہم نہیں کی جارہی اور دو سال میں یہ گرڈ مکمل ہوجائے گا تو ہنزہ میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی۔ یہ درست ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

تازہ ترین