• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے، جو پچھلے کچھ عرصے سے بار بار قوم پر یہ حقیقت واضح کررہے ہیں کہ پاکستان کی بقا و سلامتی کے لیے جمہوریت کا تسلسل ناگزیر ہے ، گزشتہ روز ایک بار پھر تمام ریاستی اداروں کو بجا طور پر متنبہ کیا ہے کہ کسی بھی جانب سے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز آئینی اور جمہوری نظام کے استحکام کے لیے خطرناک ہوگا۔جمعہ کو پارلیمان کے ایوان بالا میں عالمی یوم جمہوریت کے حوالے سے اپنے خطاب میں انہوں نے ملک کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کو مختلف سمتوں سے جھٹکے لگ رہے ہیں۔ اداروں کے حدود اور اختیارات کا آئین میں تعین کردیا گیا ہے لہٰذا طاقت کے تمام مراکز کو اپنی حدود و قیود کا لحاظ رکھنا چاہئے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔سینیٹ کے رکن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما فرحت اللہ بابر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کو مختلف ادوار میں مختلف حادثات کا سامنا رہا۔کبھی براہ راست فوجی مداخلت ہوئی ، کبھی نظریہ ضرورت کا فلسفہ مسلط کیا گیا،کبھی ایف ایل او اور پی سی او کے حربے آزمائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج بھی جمہوریت کو دیوار سے لگانے کے لیے اداروں کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کے خدشات درپیش ہیں۔جمہوریت کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور ہے جبکہ لیور آف کنٹرول پچھلی نشستوں پر بیٹھے لوگوں کے پاس ہے جس کے باعث جمہوریت کی گاڑی کسی بھی وقت خطرناک حادثے کا شکار ہوسکتی ہے جبکہ سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے بغیرفیڈریشن بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ بلاشبہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جس طرح یہ مملکت خداداد جمہوری عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی اسی طرح اس کی بقا و سلامتی اور ترقی و استحکام بھی جمہوری عمل کے تسلسل کا متقاضی ہے۔ سات دہائیوں پر مشتمل ہماری تاریخ اس امر کی پوری طرح توثیق کرتی ہے۔ جمہوری اور آئینی نظام کی بساط لپیٹے جانے کے تمام اقدامات نے ملک کو ہربار ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کیا۔ گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے منتخب حکومت اور دستور ساز اسمبلی کی برطرفی کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیے جانے سے عوام کے حقوق کی پامالی کی راہ کھل گئی۔یہ نظریہ بعد کے کئی عشروں میں آئین شکن حکمرانوںکے اقتدار کو قانونی جواز مہیا کرنے کا ہتھیار بنارہا جبکہ بعض اچھے اقدامات کے باوجود تمام آمرانہ ادوار عظیم تر قومی مفادات کے لیے شدید طور پر تباہ کن ثابت ہوئے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ ملک ٹوٹنے اور 56فی صد آبادی والے حصے کا پاکستان سے الگ ہوجانے کا سانحہ دو آمرانہ ادوار کے من مانے اقدامات اور ان سے جنم لینے والے احساس محرومی کا نتیجہ تھا۔ملک کو آج دہشت گردی کے جس فتنے کا سامنا ہے یہ بھی دو آمرانہ ادوار کے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی نئی تحریک پچھلے غیرجمہوری دور میں کیے گئے من مانے اقدامات کے نتیجے میں شروع ہوئی جبکہ منتخب ادوار حکومت میں قومی اتحاد و یکجہتی کی صورت حال میں ہمیشہ بہتری آئی ۔ملک کو داخلی اور خارجی محاذوں پر درپیش تمام موجودہ سنگین چیلنجوں اور مسائل اور مشکلات کے باوجود پاکستانی قوم کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے پاس ایک ایسا آئین موجود ہے جس پر ملک کے تمام علاقے، صوبے اور سیاسی و عوامی حلقے پوری طرح متفق ہیںلیکن پارلیمان کے ایوان بالا کے سربراہ اور ارکان کی جانب سے آئینی نظام کے حوالے سے بار بار خدشات کا اظہار صورت حال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔ قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے چیئرمین سینیٹ تمام ریاستی اداروں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز پیش کرچکے ہیں جس کا عسکری قیادت نے بھی خیرمقدم کیا ہے۔ گزشتہ روز بعض وفاقی وزراء سے اس بارے میں ان کی بات چیت بھی ہوئی ہے۔ یہ ڈائیلاگ ملک کو اندیشوں اور بے یقینی کی موجودہ فضا سے نجات دلانے اور آئینی نظام کے استحکام کو یقینی بنانے کا باعث بنے گا لہٰذا اب جلد ازجلد اس کے لیے عملی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

تازہ ترین