• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین نے خام تیل کی خریداری اور اس ضمن میں لین دین اپنی کرنسی یو ان یا سونے کے ذریعے کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس سے پیٹرو ڈالر کی اجارہ داری ختم ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ بیجنگ کے اس فیصلے سے ان ممالک کی حوصلہ افزائی ہو گی جو امریکی ڈالر میں کاروبار نہیں کرنا چاہتے کیونکہ موجودہ نظام میں امریکہ جن ممالک سے ناراض ہوتا ہے ان پر کاروباری حوالے سے زبردست دبائو ڈالا جاتا ہے۔ ڈالر کی اجارہ داری سے باہر نکلنے کے خواہاں ملکوں کی تعداد کم نہیں ۔ کیونکہ ان کے خیال میں عالمی سیاسی، سماجی اور اقتصادی امور پر کسی ایک ملک کا غلبہ دوسرے ملکوں کے اپنے معاملات اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق چلانے میں حارج ہوتا ہے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ بہت سے ممالک تجارتی لین دین برطانوی پائونڈ میں کرتے تھے ۔پاکستان جیسے کئی ممالک زر مبادلہ کے دبائو سے بچنے کے لئے باہمی معاہدے مال کے بدلے مال یا مقامی کرنسی کی بنیاد پر کرتے تھے۔ یہ طریقہ تجارتی توازن کو بڑی حد تک بگڑنے نہیں دیتا تھا مگر پیٹرو ڈالر کے طریق کار میں امریکہ کیلئے دوسرے ملکوں کو مختلف پابندیوں میں جکڑ دینا روزمرہ کا معمول بنتا محسوس ہو رہا ہے۔واشنگٹن جو ماضی میں عراق کے صدام، لیبیا کے قذافی ،آئی ایم ایف کے سربراہ اسٹراٹ کو تیل کی خریداری یورو میں کرنے کی تجاویز پر نشان عبرت بنا چکا ہے اس تبدیلی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گا۔ تاہم جوں جوں چین خام تیل کا سب سے بڑا خریدار بن رہا ہے اس کی جانب سے یوآن یا سونے یا مقامی کرنسی میں تیل یا ٹھیکوں کیلئے لین دین کے معاہدوں کی صورت میں برآمد کنندگان کے لئے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ غیر ضروری پابندیوں سے بچ سکیں۔ روس ،چین اور ایران جیسے ممالک تجارتی لین دین کے طریقے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔چین اور روس تو اپنی اپنی کرنسی میں تجارتی لین دین کا معاہدہ کر بھی چکے ہیں۔ سی پیک، ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبوں اور نئے مالیاتی ادارے کے قیام کی پس منظر میں عالمی تجارت میں اضافے کے نسبتاً آسان طریقوں کے رواج پانے کے امکانات روشن ہیں۔

تازہ ترین