• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا سفر برمنگھم سے شروع ہوا تھا۔پہلی مسافر نوازی پی آئی اے نے کی تھی مگراس وقت میں پی آئی اے کی واسوخت نہیں کہنا چاہ رہا۔ میرا مقصد صرف میانوالی اور لیہ کے سفر میں مسافر نوازیوں کی داستان رقم کرنا ہے ۔ویسی ہی مسافرنوازیاں جیسی ان دنوں انگلینڈ سے ترکی تک وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے حصے میں آئی ہوئی ہیں ۔آہ نواز شریف ۔ان کی آخری امید کا چراغ بھی گل ہوگیا ۔سپریم کورٹ نےاپنا فیصلہ برقرار رکھا۔’’مجھے کیوں نکالا گیا ‘‘ کےپُر ملال جملے کو لازوال بنادیا۔اگرچہ سابق وزیراعظم کے لئےلندن میں مسافرنوازیاں کمال تک پہنچی ہوئی ہیں مگر انہیں کچھ اچھا نہیں لگ رہا مگر میری صورت حال قطعاً ویسی نہیں ۔اِس سفر میں میرا چہرہ پھول کی طرح کھلا رہا مگر ان کا رخِ انوربجھے ہوئے دئیے کی طرح بجھا ہوا ہے ۔اگرچہ میرا قیام میانوالی کےکینال ریسٹ ہائوس میں تھا اور وہ لندن میں اپنے ذاتی فلیٹس میں رہ رہے ہیں ۔اربوں روپے کی مالیت کے فلیٹ میں مگر جو مزا وزیر اعظم ہائوس میں تھا وہ کہیں اور کہاں نصیب ہوسکتا ہے ۔لطف و کرم کی وہ سہانی راتیں اور نکھرتے ہوئے دن کسے بھول سکتے ہیں ۔اور تو اور ابھی تک سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف بھی اُن دنوں کی یاد میں آہ و فغاں کرتے رہتے ہیں ۔
میانوالی کا کینال ریسٹ ہائوس شاید انیس سو ایک میں تعمیر ہوا تھا جب انگریز حکومت نے میانوالی کو ضلع کا درجہ دیا تھا۔اس کینال ہائوس میں جنرل ایوب خان ، محترمہ فاطمہ جناح ، ذوالفقار علی بھٹو ،نواب امیر محمد خان ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور بے شمار اور بڑی بڑی شخصیات قیام کر چکی ہیں۔لندن کے وہ فلیٹس بھی کسی طرح کینال ریسٹ ہائوس سے کم عمر نہیں وہاں بھی بڑے بڑے لوگ رہ چکے ہیں مگروہ بڑےلوگ انگریز تھے وہاں قیام کرنے والی پہلی بڑی پاکستانی شخصیت سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ہے ۔
یہ بات ضرور ہے کہ اتنے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود اُن فلیٹس کے اندر داخل ہونے پر احساس ہوتا ہے کہ کسی نئے تعمیر شدہ محل کے اندر آئے ہیں ۔مگر اپنے کینال ریسٹ ہائوس میں داخل ہونے پر بالکل اس کے برعکس احساس ہوتا ہے ۔لگتا ہے اِس بیچارے کی قسمت میں بڑے عرصہ سے کوئی بڑی شخصیت نہیں آئی ۔لیہ کے سرکٹ ہائوس میں جب میں دوسال کے بعد داخل ہوا تو مجھے لگا کہ ان دو سالوں میں اس کے اوپر خوش قسمتی کا کوئی دور گزر چکا ہے اس کے در و دیوار چیخ چیخ کرکہہ رہے تھے کہ ان کا رکھوالا نہ صرف ایک زندہ شخص ہے۔بلکہ اس کے اندر حسن ِ تناسب کا ایک سمندر موجزن ہے ۔اُس شخص کا نام سید واجد علی شاہ ہے ۔جو ضلع میانوالی میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہے وہ بھی اپنے عمل میں کسی طرح کسی سے کم نہیں ۔وہ نوجوان آدمی ہیں ۔انہیں بھی کام کرنے کا شوق ہے مگر شاید ابھی انہیں کینال ریسٹ ہائوس میں قیام کرنے کا موقع نہیں ملا ۔میانوالی ڈپٹی کمشنر سے بھی میری ملاقات ہوئی ۔مسافرنوازیوں میں جہاں واجد علی شاہ کا نام آتا ہے وہاں شوذب سعید اور ڈی پی او میا نوالی صادق علی ڈوگر کے ذکر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
کہتے ہیں جس عمارت میں وزیر اعظم یاوزیر اعلیٰ ایک آدھ رات قیام کرلیں اُس کی قسمت بدل جاتی ہے شاید لیہ کے سرکٹ ہائوس کی قسمت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی زندگی کے کچھ لمحات گزرے ہیں کہ تھل کے ریگزارمیں ایک اعلیٰ رہائش گاہ کا اہتمام ہو گیا ہے ۔گزشتہ ہفتے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کچھ دیر کےلئے میانوالی آئے تھے مگر ان کی آمد میانوالی کی کسی عمارت کی قسمت نہیں بدل سکی ۔ممکن ہے عمارتوں کی تقدیریں بدلنے والے وزیراعظم کسی اور طرح کے ہوتے ہوں ۔
یورپ کا ایک قدیم مکان جسے ہم پاکستانی ’سرے محل ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں کسی زمانے اُس کی قسمت بدلنے کی ذمہ دار ی بھی اپنے آصف علی زرداری نے لی تھی ۔مجھے یاد ہے اس کی تزئین و آرائش کےلئے بہت سا ساز و سامان پاکستان سے بھی بھیجا گیا تھا مگر اُس کی قسمت زیادہ اچھی نہیں وہ سامان ایئرپورٹ پر پڑا رہ گیا تھااور سابق صدر آصف علی زرداری جیل سدھار گئے تھے۔جاتی امرا کے محلات کی بھی قسمت کچھ ’’سرے محل ‘‘ سے ملتی جلتی ہے ۔وہ بھی جب پوری آب و تاب سے زمین کی چھاتی پر جلوہ فگن ہوئے تو نواز شریف اور شہباز شریف کومکہ سدھارنا پڑا ۔بڑے بڑے لوگوں کے مکے جانے کی روایت بہت قدیم ہے ۔پرانے زمانے میں مسلمان بادشاہ اپنے جس وزیر اعظم سے ناراض ہو جاتے تھے ۔اسے قتل نہیں کرتے تھے بلکہ اسےآخری عمرمیں اللہ اللہ کرنے کےلئے مکہ معظمہ بھیج دیا جاتا تھا ۔پچھلی صدی میں یہ روایت تھوڑی سی تبدیل ہوئی اور بڑے لوگوں نے آخری عمر کےلئے لندن میں قیام مناسب سمجھا۔پاکستان کے کئی حکمران نواز شریف سے پہلے بھی لندن میں قیام کرچکے ہیں جن میں میجر جنرل اسکندر مرزا کا نام سر فہرست ہے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو بھی وہاں کافی عرصہ تک قیام پذیر رہیں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ نواز شریف کب تک لندن کے فلیٹس کوبھاگ لگاتے ہیں ۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف کئی دنوں سے ترکی میں مقیم ہیں ۔ممکن ہے انہیں اپنے بھائی نواز شریف کی باقی عمر کے قیام کےلئے ترکی زیادہ پسند آیا ہو اور وہ وہاں ان کی رہائش کے انتظام کےلئے گئے ہوئے ہوں ۔بہرحال ترکی ایک مسلمان ملک ہے مگر ترکی کاسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں پاکستانی بہت کم ہیں جب کہ انگلینڈ پاکستانیوں سے بھرا پڑا ہے اور کوئی لیڈر اپنی قوم سے کیسے جدا رہ سکتاہے ۔سو نواز شریف کا مستقلاً قیام لندن میں ہی مناسب رہے گا ۔البتہ وہاں ایک پرابلم ہوسکتا ہے ۔یہ خدشہ مسلسل برقرار ہے کہ منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانوی حکومت لندن کے فلیٹس کو کہیں اپنی تحویل میں نہ لےلے ۔ویسے اس کا امکان ابھی تو بہت کم ہے مگر مستقبل میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ان سب باتوں کا دار و مدارنیب کے ریفرنس کے ساتھ جڑا ہوا ہے اگر ان مقدمات میں بھی نواز شریف کو عدالت نے سزا سنا دی تو پھر ان فلیٹس کی تزئین و آرائش کا خرچ ہونے والا سارا وقت ضائع چلا جائے گا ۔میں نے سرمایہ ضائع ہونے کی بات نہیں کی کیونکہ وہ تو نواز شریف کے پاس بہت ہے ۔البتہ ’’وقت ‘‘ کا مسئلہ ضرور ہے ۔بہر حال دنیا میں مسافر نوازوں کی کوئی کمی نہیں ۔نواز شریف کےلئے ہر ملک میں ایک شجر سایہ دار موجود ہے اور کہتے ہیں کہ پڑوس میں تو پورا گلستاں ان کا منتظر ہے مگر وہاں بھی یہ مسئلہ ہے کہ وہاں پاکستانی آباد نہیں ہیں ۔

تازہ ترین