• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ ن کے رہنما چوہدری نثار علی خان فرماتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف،آرمی چیف،ڈی جی آئی ایس آئی اور چوہدری نثار کے علاوہ کسی کو ان خطرات کا علم نہیں ہے۔چوہدری نثار ملکی سلامتی کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کررہے تھے تو مجھے اس پر سر ونسٹن چرچل یاد آگئے۔دو سری جنگ عظیم کے دوران ونسٹن چرچل نے اپنا دفتر کیمبرج یونیورسٹی کے ایک کمرے میں منتقل کرلیا تھا۔ایک صبح چرچل کا ماتحت دوڑتا ہوا آیا اور بتایا کہ جرمن فوجیں برطانیہ کے سر پر پہنچ گئی ہیں۔ خوفناک بمباری کی وجہ سے برطانیہ کی سلامتی کو شدید خطرہ ہے۔چرچل نے اطمینان سے پوچھا کہ برطانیہ میں عدالتیں کام کررہی ہیں۔ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالتیں کام کررہی ہیں۔چرچل نے پھر پوچھا کہ کیا وہ انصاف فراہم کررہی ہیں۔ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں برطانیہ میں عدالتیں مکمل انصاف فراہم کررہی ہیں ۔چرچل مسکرائے اور کہنے لگے کہ جب تک برطانیہ میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو برطانیہ کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔چوہدری نثار صاحب کی بات کا بھی یہی جواب ہے کہ اگر ملک میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں توپاکستان کی سلامتی ہر خطرے کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ہمیں ہر معاملے کو پس پشت ڈال کر مضبوط اور موثر عدالتی نظام متعارف کرانا ہوگا۔ایک ایسا نظام جس میں کوئی بھی فرد یا ادارہ فیصلوں پر اثر انداز نہ ہوسکے۔
مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف آج عدالتی نظام میں بہتری کی بات کرتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ ڈیڑھ سال قبل ایک مقدمے کی سماعت کے بعد مسلم لیگ ن کے ایک روح رواں نے مجھ سے پوچھا کہ موجودہ حالات کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟ میں نے انہیں اس وقت کہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں آپکاانتخابی منشور جوڈیشل ریفارمز کے مینڈیٹ پر مشتمل ہوگا۔انہوں نے گفتگو کو آگے بڑھانا چاہا میں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات آپکی اولین ترجیح ہوگی، اس کے بغیر مسلم لیگ ن کی بقا ممکن ہی نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے ایک جج نے گزشتہ روز ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون کو اندھا ہونا چاہئے جج کو نہیں؟معزز جج صاحب کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کیونکہ اختلاف کی گنجائش نہیں۔مسلم لیگ ن کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل پر جسٹس عظمت سعید صاحب نے کہا کہ ’’کورٹ پر اعتماد کریںسڑکوں پر نہیں‘‘مگر ریکارڈ کی درستی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ آج ملک کی ’’آزاد عدلیہ‘‘ بھی سڑکوں کی مرحون منت ہے۔اگر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اس وقت کے عدالتی نظام کو چیلنج کرتے ہوئے سابق صدر مشرف کے خلاف سڑکوں پر نہ نکلتے تو شاید آزاد عدلیہ کی بحالی ممکن نہ ہوتی۔آج پاناما کیس کے فیصلے کے بعد اداروں کے حوالے سے تحفظات،اعتراضات اور تبصروں میں انتہائی شدت آئی ہے۔اگرمسلم لیگ ن کے اکابرین پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے عدالتی فیصلے کوہدف تنقید بناتے ہیں تو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان براہ راست الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلوں کو روندتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستا ن بھی ایک آئینی ادارہ ہے۔ہمیں اور ہمارے اداروں کو اپنے معیار مختلف نہیں رکھنے چاہئیں۔ اگر کوئی ادارہ صرف یہ سوچ کر الیکشن کمیشن کے شانہ بشانہ نہیں کھڑا ہوگا کہ ہمار ا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے تو کل آپکے ساتھ بھی کوئی نظر نہیں آئے گا۔مگر شاید عمران خان کے معاملے میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے جلد ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کا حکم معطل ہوسکتا ہے۔ جب ملک میں ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو پھر قومی سلامتی کو اصل خطرات لاحق ہوتے ہیں۔پاکستان میں مضبوط اور موثر عدالتی نظام کا سب سے زیادہ فائدہ غریب عوام کو ہورہا تھا۔افتخار چوہدری کی مرحون منت آج کی آزاد عدلیہ روجھان مزاری میں زیادتی کا نشانہ بننے والی 12سالہ شازیہ کے لئے امید کی واحد کرن تھی۔بلوچستان کے دور دراز علاقے قلعہ عبداللہ سے جب کوئی نوجوان لاپتہ ہوتا تھا تو ورثاء شاہراہ دستور پر قائم سپریم کورٹ کی عمارت کی طرف دیکھتے تھے۔کون بھول سکتا ہے کہ مقتدر ادارے کے ان افراد کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا ،جن کے خلاف عام شہری شکایت کرنے کا بھی تصور نہیں کرسکتا تھا۔ ہر معاملے میں سپریم کورٹ مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوجاتی تھی۔سپریم کورٹ کی یہ عزت بنانا اور اپنے احکامات کی رٹ قائم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے غریبوں کی آہ پر لبیک کہہ کر اور انصاف پر مبنی فیصلے سنا کر ایگزیکٹو کو مجبور کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کریں۔ایگزیکٹو کو کنٹرول کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔یہ افسران منتخب سیاستدانوں کے قابو نہیں آتے تو کسی اور ادارے کی بات کیا سنیں گے۔لیکن جب ایگزیکٹو نے دیکھا کہ انصاف سب کے لئے ایک جیسا ہے۔اگر سپریم کورٹ وزیراعظم کی پرنسپل سیکرٹری نرگس سیٹھی کوتو ہین عدالت میںطلب کرتی ہے تو دوسری طرف حساس اداروں کے افسران کو بھی کمرہ عدالت میں آٹھ آٹھ گھنٹے بٹھایا جاتا ہے۔پولیس سروس آف پاکستان کے سر پھرے افسران جو ماضی میں کسی بھی عدالت کا حکم ماننے کے بجائے مدعی حضرات پر زمین تنگ کردیتے تھے ،جب انہوں نے دیکھا کہ رینجرز کے اہلکاروں کو بھی گرفتار کرکے اوپر سے کارروائی کاآغاز کیا جاتا ہے ۔تو پھر انہوں نے بھی عدالتی نظام کے سامنے سرنگوں ہونے میں عافیت جانی۔ایگزیکٹو کی بات کی جائے تو ضلع میں ڈی پی او اور ڈی سی سب سے اہم افسران ہوتے ہیں۔مگر ان دونوں افسران کی عسکری اداروں کی لوگوں سے شاذ و نادر ہی بنتی ہے اور ضلعی انتظامیہ ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔لیکن جب انہی ضلعی افسران نے دیکھا کہ جن لوگوں کے سامنے ہم بے بس ہوتے ہیں وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے ہیں تو ایگزیکٹو نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فیصلہ کیا کہ عدالتوں کے سامنے بغیر کسی عار کے سرنڈر کیا جائے ،کیونکہ میرٹ سب کے لئے برابر ہے اور قانون اندھا ہے۔لیکن آج صورتحال بدل رہی ہے۔ابھی کسی بھی فیصلے پر عملدر آمد کرانے سے براہ راست انکار کرنا ممکن نہیںہوگا۔مگر اس کارخانہ قدرت میں روڑے اٹکانا بہت آسان ہے۔آہستہ آہستہ معاملات 2007کی عدلیہ بحالی تحریک سے پہلے والی جگہ پر چلے جائیںگے اور اس کا اگر سب سے زیادہ نقصان کسی کو ہوگا تو ہ عام غریب شہری ہے۔عدالتی احکامات پر عملدرآمد میں تاخیر اور ریلیف نہ ملنے کی سزا غریب کو کاٹنا ہوگی۔میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر ہوگا مگر ایک قدرتی عمل ضرور ہوگا۔کچھ معاملات کو آپ چاہتے ہوئے بھی نہیں روک سکتے۔کیونکہ آج ہم نے یہ تو دیکھ لیا کہ ملک کی عدالتوں کے لئے وزیراعظم کو گھر بھیجنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔کمزور وزیراعظم ایک فیصلے کے بعد چند گھنٹو ں میں گھر چلا جاتا ہے۔مگر کیا ہم ایسے ہی فیصلے سے کسی اور کو گھر بھیج سکتے ہیں۔مان لیا منتخب وزیراعظم غلط تھا مگر اس سے تو بعد میں بھی نمٹا جاسکتا تھا۔کیا اب ہم کسی اور سے نمٹ سکتے ہیں؟ شاید کبھی نہیں؟ اس لئے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاناما کے عدالتی فیصلے سے ہمارا عدالتی نظام نہیں بلکہ کوئی اور مضبوط ہوا ہے اور اتنا مضبوط کہ ہر کوئی ان کے پیچھے کھڑا ہوگا۔

تازہ ترین