• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازع پر ہونے والے مذاکرات ایک بار پھر بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان نے اس مسئلے کے حل کے لئے ثالثی عدالت کے قیام جبکہ بھارت نے غیرجانبدار ماہرین مقررکرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عالمی بینک کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات میں سندھ طاس معاہدہ کے تحت کشن گنگا، رتلے پن بجلی کے تکنیکی امور زیر بحث آئے۔عالمی بینک کے ہیڈکوارٹرز میں ہونے والے مذاکرات میں بھارت پاکستان کے اعتراضات اور تحفظات دور اورعالمی بینک کو قائل کرنے میں ناکام رہا تاہم ورلڈ بینک نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ مکمل غیرجانبداری اور شفافیت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے مطابق ذمہ داری نبھائے گا اور دوستانہ حل کے لئے دونوں ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔عالمی بینک نے اپنے بیان میں یہ اعتراف بھی کیا کہ پاک بھارت آبی تنازع کے حل کے حوالے سے ہونے والے اب تک کے تمام اجلاسوں میں پیش کی گئی کسی بھی ایک رائے پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ 1960ء کے سندھ طاس معاہدے پر تحفظات کے باوجود پاکستان نے نہ صرف اسے خوشدلی سے تسلیم کیا بلکہ ہر دور میں اسے مقدم رکھا کیونکہ اس کے بعد کسی آبی معاہدے پر دونوں ممالک کا متفق ہونا بعید از قیاس محسوس ہوتا ہے۔1990ء میں بگلیہار ڈیم کی تعمیر سے دونوں ممالک کے مابین دوبارہ اختلافات نے جنم لیا مگر بھارت کی جانب سے پاکستانی اعتراضات کا جواب دینے کی بجائے تاخیری حربوں، مزید منصوبوں کی تعمیر اور یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کے اعلانات سے مفاہمتی کوششوں کو ٹھیس پہنچی۔ اگرچہ عالمی بینک معاملے میں ثالث کے طور پر فعال کردار ادا کر رہا ہے مگر بھارت کے غیر سنجیدہ رویے کے باعث کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔بلا شبہ آبی تنازعات کے حل کیلئے نیک نیتی سے بات چیت ہی واحد پرمن طریقہ ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارت سنجیدہ رویہ اختیار کرے ۔ عالمی برادری کا فرض ہے کہ علاقائی امن کیلئے بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی پاسداری پر مجبور کرے۔

تازہ ترین