• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے خلاف بین القوامی سازشوں کا جال بچھانے والے ایک بار پھر سرگرم ہو چکے۔ ایک طرف امریکا کی طرف سے پاکستان کے متعلق جو پالیسی فیصلے کیے جا رہے ہیں وہ کھلے عام ہمارے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے اشارے دے رہے ہیں تو دوسری طرف برطانیہ اور یورپ خصوصاً سویزرلینڈ میں پاکستان کے خلاف بلوچستان کے معاملہ پر بھارتی پروپیگنڈے کو ہوا دی جا رہی ہے اور اس پروپیگنڈہ میں ہمارے ہی کچھ ’’میر صادق‘‘ اور ’’میر جعفر‘‘ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان جو پہلے ہی اپنے نیو کلیئر پروگرام کی وجہ سے اسلام دشمن قوتوں کا کافی عرصہ سے نشانہ بنا ہوا ہے، کو اب سی پیک (چائینا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ) کی وجہ سے امریکا، بھارت سمیت بہت سوں کی دشمنی کا سامنا ہے۔ ان حالات میں اگر پاکستان کے اندر کی تقسیم کو بڑھایا جاتا ہے تو پھر شعوری یا غیر شعوری طور پر ہم بھی وہی کام کر رہے ہوں گے جو ہمارے دشمن کے فائدہ میں ہے اور پاکستان کے خلاف۔ آج کی اخبارات میں برطانوی میڈیا کی خبر پڑھی کہ امریکا پاکستان مخالف سخت اقدامات کی تیاریاں کر رہا ہے۔ ان اقدامات میں پاکستان کا غیر نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کر کے دہشتگردی کا پشت پناہ ملک قرار دیئے جانے کے امکان شامل ہیں جس کے نتیجہ میں پاکستان کی نہ صرف امداد میں کمی کرنے بلکہ یکطرفہ ڈرون حملوں کے علاوہ پاکستانی حکام پر پابندیوں کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔خبرکے مطابق ان پاک مخالف امریکی اقدامات سے پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت کی پابندی کے ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضوں کے حصول میں بھی مشکلات ہوں گی۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے خلاف ان بین القوامی سازشوں کا زور ایک ایسے وقت میں بڑھ رہا ہے جب ہم اندرونی طور پر بُری طرح سے سیاسی اختلافات کے باعث تقسیم کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی قابل افسوس ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کا متنازعہ فیصلہ بھی ابھی سامنے آیا۔وٹس ایپ کال سے جے آئی ٹی سے متعلقہ تنازعات تک اور پھر نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی نوعیت اور حدیبیہ کیس میں نیب پر اپیل درج کرنے کے لیے دبائو تک کے معاملات نے کئی سیاسی و قانونی سوالات کھڑے کیے اور سازشی تھیوریوں کو ہوا دی۔ ن لیگ کے علاوہ کچھ دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنما بشمول پی پی پی کے رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر تک اداروں کے درمیان کشمکش کے بارے میں کھلے عام بات کر رہے ہیں۔ ان سیاسی و قانونی معاملات میں ایک طرف اگر ن لیگ بلخصوص اور سیاستدانوں کو بلعموم یہ احتیاط ضرور برتنی چاہیے کہ اداروں کے درمیان تنائو کو خطرناک لڑائی میں نہ بدلا جائے بلکہ اس تنائو کو کم کیا جائے (جس کی تجویز رضا ربانی دے چکے)، تو دوسری طرف نہ صرف عدلیہ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ جو انصاف کر رہی ہے وہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آ ئے اور اُس میں کسی ذاتی عناد اور سازش کی بو شامل نہ ہو بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اُس کا کوئی فرد ان سیاسی و عدالتی معاملات میں کسی بھی طور شریک نہ ہو۔ ہم سب کی بہتری اسی میں ہے کہ ہر کوئی اپنا اپنا کام کرے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئین کی پاسداری کے لیے ہر ادارہ اپنی مقرر آئینی حد کے اندر رہ کر کام کرے۔ اگر ہمارے ادارے ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہے تا کہ ایک مضبوط اور دوسرا کمزور ہو تو اس کھیل میں کمزور صرف اور صرف پاکستان ہی ہو گا۔ ایک بات حالیہ ہفتوں میں اچھی رہی کہ میاں نواز شریف کی وزیر اعظم آفس سے رخصتی کے بعد موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے فوج وسول کے درمیان سیکیورٹی معاملات اور اہم خارجہ امور پر کھلی بحث و مباحثہ کے لیے بار بار کابینہ کی سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگز بلائیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا۔ امریکا، افغانستان، بھارت سے متعلقہ معاملات پر اب یہ بات کی جا رہی ہے کہ سول و فوج ایک صفحہ پر ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے۔ ایسے حالات میں اور ان نازک امور پر وزیروں کو اپنے بیانات میں احتیاط برتنی چاہیے۔ خصوصاً وزیر خارجہ کو بہت سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔ خواجہ آصف کا ایک حالیہ بیان کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے نے پاکستان کے علاوہ بیرون ملک اخباروں میں شے سرخیوں میں جگہ لی۔ مجھے نہیں معلوم کہ خواجہ صاحب کے کہنے کا مقصد کیا تھا اور اشارہ کس طرف تھا لیکن اُن کی بات کو پاکستان مخالف بھارتی و امریکی بیانیہ کی تصدیق کے طور پر بھی لیا گیا اور اس بات کا اظہار چوہدری نثار علی خان نے بھی کیا۔ چوہدری صاحب کو ہو سکتا ہے کہ خواجہ آصف پر اپنا پرانا غصہ بھی ہو یا میاں نواز شریف کی ناراضی کی وجہ لیکن میں بھی سمجھتا ہوں کہ خواجہ صاحب کو بحیثیت وزیر خارجہ بولنے میں اب احتیاط کرنی چاہیے اور ایسی بات نہ کریں جو غیر اپنے مقصد کے لیے استعمال کریں۔ پاکستانیوںکے لیے بہتر ہو گا کہ وہ کم بولیں اور جب بولیں تواتنا بولیں جتنے کی ضرورت ہو۔ جہاں تک آئی ایس آئی کا تعلق ہے تو اس ادارہ کے سیاسی معاملات میں مداخلت کو روکنے کے لیے بات ہونی چاہیے اور اسے روکا بھی جانا چاہیے لیکن اپنی تنقید میں ہمیں اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ آئی ایس آئی پاکستان کے دفاع کا دستہ اول (First line of defence) ہے اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم آئی ایس آئی اور فوج کے بارے میں بھارت اور امریکا کی زبان بولنے لگیں۔ یہاں فوج اور آئی ایس آئی کو بھی اس بات کی بھی نگرانی کرنی چاہیے کہ کہیں اُن کے افسران ٹیوٹر، فیس بک ، سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے حکومت اور کسی خاص سیاستدان یا سیاسی پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ تو نہیں کر رہے۔ اس کھیل سے دفاعی اداروں کو اپنے آپ کو دور ہی رکھنا چاہیے۔

تازہ ترین