• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس اور اس کے فیصلے کے پس منظر میں چلائی جانے والی زبردست مخالفانہ مہم کے باوجود سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست این اے 120لاہور کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی امیدوار بیگم کلثوم نواز جو علالت کی وجہ سے لندن میں زیر علاج ہونے کے سبب انتخابی مہم میں خود حصہ بھی نہ لے سکیں، کی جیت سے کئی حقیقتیں سامنے آئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ عوام نے امیدواروں کو ان کے میرٹ پر ووٹ دیئے اور ثابت کر دیا کہ اس الیکشن میں کسی کی ہار جیت کا عدالتی فیصلے کے درست یا غلط ہونے سے جوڑنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ دوسری بات یہ کہ جس طرح لاڑکانہ پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اسی طرح لاہور بھی ن لیگ کا مضبوط قلعہ ہے جسے کوئی محض جذباتی نعروں سے فتح نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے اسے اپنی کارکردگی دکھانا ہوگی اور قابل عمل پروگرام پیش کرنا ہو گا۔ جو ہزار اختلاف کے باوجود ن لیگ کی پہچان بن چکا ہے تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ مخصوص حالات کے تناظر میں پورے ملک، خصوصاً پنجاب میں مسلم لیگ ن کے حق میں اس فتح کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ لاہور کے ضمنی انتخاب کی یہی اہمیت تھی جس کی وجہ سے حکمران اور مخالف جماعتوں نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا رکھا تھا۔ ن لیگ کی امیدوار بیگم کلثوم نواز کو اپنی بیٹی اور پارٹی کی سرگرم رہنما مریم نواز کی پرجوش مہم کے نتیجے میں غیر حتمی نتائج کے مطابق 61254جبکہ پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد کو 47066 یعنی ان سے تقریباً 14 ہزار ووٹ کم ملے لیکن مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو 2013 کے انتخابات کے مقابلے میں ن لیگ کے ووٹوں میں کافی کمی آئی جبکہ پی ٹی آئی کے ووٹوں میں بہت اضافہ ہوا۔ ملک کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت پیپلز پارٹی کو تین ہزار سے بھی کم ووٹ ملے۔ یہ صورتحال تینوں بڑی پارٹیوں کے لئے آنے والے عام انتخابات کے حوالے سے زیادہ سنجیدگی کی متقاضی ہے۔ مسلم لیگ ن کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس ایک ضمنی انتخاب کی جیت پورے پنجاب میں اس کی فتح کی نقیب بن جائے گی۔ اسے سندھ اور خیبر پختونخوا میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی اپنا ووٹ بنک برقرار رکھنے کے لئے بہت محنت کرنا ہوگی۔ تحریک انصاف نے 2013 کے مقابلے میں پنجاب پر زیادہ توجہ دے کر یہاں اپنے لئے کافی جگہ بنالی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک ایک سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے مفاد میں ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں الزام تراشی اور مقتدر اداروں کےفیصلوں اور اشاروں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے منشور اور سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر عوام میں اپنی مقبولیت بڑھائیں ضمنی انتخاب کے حوالے سے تینوں بڑی جماعتوں نے انتخابی بے قاعدگیوں اور دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں جو ہر انتخاب کے بعد عام معمول بن چکا ہے پی ٹی آئی29 ہزار ووٹروں کا معاملہ عدالت میں لے جا رہی ہے جن کی مبینہ طور پر بوگس رجسٹریشن ہوئی۔ مسلم لیگ ن کو شکایت ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں انتخاب سے ایک روز قبل اس کے درجنوں اہم ورکروں کو اٹھا لے گئیں یہ شکایت بھی ہے کہ پولنگ کے لئے وقت نہ بڑھانے کے باعث دیر سے پہنچنے والے ہزاروں ووٹر ووٹ نہ ڈال سکے۔ تجزیاتی ادارے فافن نے اپنے طور پر انتخابی عمل میں 419بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے 39پولنگ اسٹیشنوں پر بائیو میٹرک مشینوں کا استعمال کیا گیا جو ایک اچھا تجربہ تھا مجموعی طور پر پُر امن ضمنی انتخاب فوج، رینجرز اور پولیس کا مرہون منت ہے جنہوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر نہایت عمدگی سے ڈیوٹی انجام دی اس کی وجہ سے سیاسی کارکنوں میں بات معمولی تلخ کلامی سے آگے نہ بڑھ سکی۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ سیاسی پارٹیوں اور فافن کی شکایات اور تجاویز پر سنجیدگی سے توجہ دے تاکہ آنے والے انتخابات کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنایا جا سکے اس معاملے میں آئین و قانون پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بنایا جائے تاکہ ملک میں جمہوری ادارے مضبوط ہو سکیں۔

تازہ ترین