• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 پاکستان میں صحت عامہ کے مسائل، عوام کے حقوق اور حکومت کی ذمہ داریاں کے موضوع پر کراچی میں منعقدہ ایک سیمینار میں ممتاز دانشوروں اور ماہر معالجین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں ہیلتھ پالیسی ہی نہیں ہے، آخری پالیسی 2009میں آئی تھی، پالیسی کے بغیر صحت کے مسائل کیسے حل ہوں گے۔ پاکستان کے قیام کے ابتدائی دنوں میں جب ریاست کو وسائل کی شدید کمی کا سامنا تھا اس وقت عام آدمی کو صحت کی بہترین سہولتیں میسر تھیں۔ لیکن آج بڑھتی ہوئی بدانتظامی، کرپشن اور سفارش کے کلچر نے ہیلتھ سیکٹر کے ڈھانچے کو بری طرح متاثر کرتے ہوئے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ مختلف رپورٹوں اور اندازوں کے مطابق صحت عامہ کی ناکافی سہولتوں کے سبب پاکستان میں اوسط عمر 66برس، بنگلہ دیش میں 70برس اور سری لنکا میں 74برس ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح فی ہزار میں 69کی ہے جبکہ انڈیا میں 41اور ملائیشیا میں 7کا اوسط ہے۔ اسی طرح زچگی کے دوران مائوں کی شرح اموات پاکستان میں دس ہزار میں 170، چین میں 32اور ملائیشیا میں 29ہے۔ ملک میں ہر منٹ میں ایک بچہ کسی متعدی بیماری، اسہال یا سانس کی تکلیف سے مر جاتا ہے۔ 4لاکھ بچے زندگی کے پہلے سال میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ گٹکا، پان، سگریٹ کے استعمال سے امراض دہن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں ڈاکٹرز کی تعداد تو بڑھ گئی تاہم موثر حکمت عملی نہ ہونے سے نرسوں و پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی کا سامنا ہے۔ اسی طرح ہیلتھ سیکٹر کی زبوں حالی کی ایک اہم وجہ ملکی بجٹ میں صحت کیلئے کم حصہ مختص کیا جانا ہے۔ اکثر ضرورت پڑنے پر اس کم حصے میں سے بھی رقم نکال کر دیگر شعبوں پر لگا دی جاتی ہے۔2016 میں حکومت نے نیشنل ہیلتھ وژن پروگرام متعارف کروایا تھا کیا ہی اچھا ہو اگر اس کے نکات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی ٹھوس اور جامع صحت پالیسی کا اعلان کیا جائے جو ہماری آنے والی نسلوں کی بہترین صحت کی ضامن بنے۔

تازہ ترین