• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 اسلامی سال ختم ہونے والا ہے۔ تاریخ ِاسلام بتاتی ہے کہ ذوالحجہ کے آخری ایام میں جلیل القدر صحابی اور خلیفہ ٔ دوم حضرت عمر فاروقؓ کو حملہ کرکے شہید کردیا گیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ کا شماربڑے فاتحین میں ہوتاہے، وہ قریباً 23لاکھ مربع میل کی سلطنت کے حکمران تھے۔ ان کے عہد میں بے شمارفتوحات ہوئیں۔ اس عہد میں اسلامی سلطنت میں شام، ایران بھی تھا، یروشلم بھی۔ یروشلم میں داخلے کےوقت حضرت عمرؓ کا غلام اونٹ پر سوار تھا جبکہ انہوں نےخوداپنی باری کےمطابق نکیل پکڑ رکھی تھی۔ وہاں کے لوگوں نے دور سے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ ہے مسلمانوں کا خلیفہ؟ جس کی ہیبت سے سلطنتیں کانپتی ہیں، یہ تو کوئی حبشی لگتا ہے۔ اس پر حضرت ابوعبیدہؓ کہنے لگے’’نہیں، ہمارا خلیفہ وہ ہے جس نے نکیل تھام رکھی ہے۔ وہ خوبصورت اور درازقد ہے۔‘‘
آپ ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ کیا آج کا کوئی مسلمان حکمران ایسا عمل کرسکتا ہے، اگر ایسا نہیں کرسکتا تو پھر مساوات کیسی؟ پھر رسوائیوں کا رونا کیوں؟
اسلام کوفرقہ بندیوں کی نگاہوں سے دیکھنے والوں نے تاریخ کو اختلاف کی جھولیوں میں رکھ دیا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا حضرت عمر فاروقؓ کے عدل پررشک کرتی تھی، کیا یہ سچ نہیں کہ انہو ںنے مسجد میں خود کو احتساب کے لئے پیش کیا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک عام شہری نے جلالی طبیعت کے حامل خلیفہ سے اس کے لباس کے بارے میں سوال کیااور پھر آپؓ کے بیٹے نے جواب دیا۔ ایک لمحے کے لئے رکیے اور پھردنیا بھر میں پھیلے ہوئے اسلامی حکمرانوں کے چہروں کو دیکھئے۔ کیا آج کےمسلمان حکمران عدل کے معاملے میں حضرت عمر فاروقؓ کی پیروی کر رہے ہیں؟جواب آئےگا، ہرگز نہیں۔ ذرا سوچئے کہ کیا آج کے مسلمان حکمران خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہیں، کیا آج کےکسی اسلامی ملک کا عام شہری اپنے حکمران سے کچھ بھی پوچھ سکتا ہے؟ ایک ہی جواب ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اگریہ سب کچھ ہے تو پھر آج اسلامی دنیا کی رسوائی پر کیارونا، جب ان کے حکمرانوں نے اپنے خلفا کی پیروی چھوڑ دی تو مقدر میں تاریکیوں اور تنزلیوں کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟
کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا میں پہلی مرتبہ سماجی نظام کو کئی خوبیوں سےمتعارف کروانے والے کا نام حضرت عمر فاروقؓ ہے۔ کیا پولیس، ڈاک اور بیت المال سمیت کئی انقلابی اقدامات حضرت عمر فاروقؓ نے متعارف نہیں کروائے؟ کیایہ سچ نہیں کہ ناروے سمیت کئی مغربی ملکوں میں سماج کی بہتری کےقوانین کو آج بھی ’’عمر لاز‘‘ کے نام سے پکارا جاتاہے۔ پھر ایک لمحے کےلئے رکیے اور ذراسوچئے کہ کیا مسلمان ملکوںمیں عمر لاز پرعمل ہو رہا ہے؟کیا سماج میں سارے نظام درست ہیں؟جواب آئے گا، ہرگز نہیں۔
ریاست ِ مدینہ کو اختلافات کی جھولی میں ڈالنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ جب سورہ منافقون نازل ہوئی تو صحابہؓ بہت پریشان تھے کہ آخر انہیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون منافق ہے۔ ایک روز نبی پاکﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت عمرؓ نے اپنے پیارے نبیﷺ سے عرض کیا’’یارسول اللہؐ! یہاں مدینہ میں ہر شخص نے داڑھی رکھی ہوئی ہے،ہر کوئی نمازپڑھتا ہے، ہر کوئی تلاوت کرتا ہے تو ایسے میں ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ کون منافق ہے؟‘‘ رحمت دوجہاں نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’اے عمرؓ! جب کوئی شخص تمہارے سامنے آئے تو اس کے سامنے علیؓ کا تذکرہ کرو اگر وہ خوش ہو تو مومن ہے اور اگر اسکے چہرےپر پریشانی کے آثار نظر آئیں تو سمجھ لینا کہ وہ منافق ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے کئی دیگر صحابہؓ تک یہ پیغام پہنچایا۔
چونکہ دنیا میں عدل فاروقی کی مثال دی جاتی ہے یہاں ایک واقعہ رقم کر رہا ہوں تاکہ صحابہؓ کی آپس میں محبت کا اندازہ ہوسکے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے ایک چوری کا مقدمہ آگیا۔ آپؓ نے چور کےہاتھ کاٹ دینے کا حکم صادر فرمایا کہ اتنے میں عدالت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نمودارہوئے۔ انہوں نے پوچھا کہ ’’اے خلیفۃ المسلمین! کیا آپؓ نے چوری کی وجہ پوچھی؟‘‘ اس پر حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا ’’نہیں‘‘ جواباً حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ’’پہلے چوری کی وجہ پوچھی جائے کیونکہ نان و نفقہ کا بندوبست کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔‘‘ جب چور سےوجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ اس نے فاقوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری کی ہے۔ اس جواب کے بعد اس کی سزا کو معاف کردیا گیا۔ اس کے لئے نان و نفقہ کا بندوبست کیا گیا اور اس مرحلےپر حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا ’’کہ آج ابوالحسنؓ یعنی حضرت علی ؓ نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا، آج کے بعد اسلامی ریاست میں ہر ایک کے نان و نفقہ کا بندوبست ریاست کرے گی۔‘‘
اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد ذرا سوچئے کہ کیاآج کے مسلمان حکمران ایسا سوچتے ہیں۔ کیا آج کی اسلامی دنیا میں انسانوںاور جانوروںکا اس قدر خیال رکھا جاتا ہے؟ کیا یہ درست نہیں کہ آج کی مغربی دنیا میں انسانوں
اور جانوروں کا خیال رکھا جاتا ہے اور کیا یہ سچ نہیں کہ اسلامی ملکوں میں حکمرانوں کو اس بات کی پروا ہی نہیں کہ کون بھوکا سویا ہے، کون فاقے کر رہاہے۔ شہادت حضرت عمر فاروقؓ کے دن یہ سوالات مسلمان حکمرانوں کے سامنے ہیں کہ کیا وہ سب کچھ درست کررہے ہیں؟ کیا انہیں قبر یاد ہے؟ کیا انہیں یوم حساب یاد ہے؟ کیا انہیں یہ خبر ہے کہ ان سے ان کی حکمرانی کا پورا پورا حساب لیا جائے گا؟ ان سے پوچھا جائے گا کہ ان کی ریاستوں میں انسان بھوکے تو نہیں سوئے تھے؟ کتنی ناانصافیاں ہوئی تھیں؟ سب سوال اپنی جگہ مگر آج کے حکمرانوں کو اس سے کیا؟ ا نہیں تو دولت سے رغبت ہے اور دولت کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ بس احمد فرازؔ کاشعر یاد آرہا ہے کہ؎
شکوۂ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

 

تازہ ترین