• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترمہ کلثوم نواز، محترمہ مریم نواز، جناب نواز شریف صاحب اور ن لیگی کارکنوں کو حلقہ120کے ضمنی انتخاب کی جیت مبارک۔ یہ فقط آپ کی سکہ بند سیٹ کا تحفظ ہی نہیں اپنی خطرات میں گھری بقیہ سیاست کو بچانے کا بھی چیلنج تھا، جو پاکستان میں پہلی مرتبہ قانون کی عملداری سے ٹاپ ٹو ڈائون احتساب کی صورت ممکن ہو کر نواز وزارت عظمیٰ کے خاتمے کا باعث بن کر آپ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہے۔ بلا شبہ یہ’’ قانون کے بلاامتیاز سب پر نفاذ‘‘ کی انصاف انگیز اپروچ عملاً اختیار کرنے کا نتیجہ ہے، جسے محترمہ کلثوم نواز کی جیت آئینی انتخابی عمل کا حاصل، ہر دو انداز سے آئین و قانون کی بالادستی قائم کر کے پاکستان بطور اسلامی جمہوریہ آگے بڑھا ہے۔ جمہوریت کی بقا اور ملکی استحکام کے لئے اس پیشرفت میں تیزی شدت سے مطلوب ہے۔ ایسے میں انتخابی کامیابی پر محترمہ مریم نواز کا امی ّکی جیت کو’’ فیصلے پر فیصلہ‘‘ قرار دینے کا کیا مطلب؟ یہی نا کہ ان کی کامیابی نے ابو کے خلاف سپریم کورٹ کے تاحیات فیصلے کو رد کردیا ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب ہے تو وضاحت کردیجئے کہ ہم کم فہم بھی اصل سمجھ لیں، وگرنہ آپ کا غیر جمہوری بیانیہ آئین کی قائم ہونے والی بالا دستی کو للکار ہے۔ اسی’’جرأت شاہانہ‘‘ کا شاخسانہ ہے کہ حلقہ120میں جیت شریف خاندان اور ن لیگ کی شدید سیاسی ضرورت، آپ کے بلند یقین اور اکثر تجزیوں سے میچ نہیں کھاتی، بلکہ آپ کی بقیہ سیاست کے لئے الارمنگ ہے۔ محترمہ!فیصلے پر کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ ’’وفا کے کسی پیکر‘‘ نے آپ کو گمراہ کیا ہے، وگرنہ اپنے ہی وکلاء سے پوچھ لیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ، فیصلہ ہی ہے جو قانون کی عدالت کا فیصلہ ہے اور آپ کی والدہ محترمہ کی کامیابی انتخابی جیت ہے۔یاد رکھیئے قانون و سیاست و صحافت کی کسی ڈکشنری میں’’عوامی عدالت‘‘ کوئی اصطلاح نہیں، یہ تو انارکی زدہ معاشرے میں لاقانونیت کا مہلک رجحان ہے یا پھر بےسمت انقلاب میں بے قابو بپھرا عوامی رویہ یا قانون سے بالا بالا خود ساختہ جرگے۔ سو،اوّال الذکر ملکی قانون ہے اور آپ کی والدہ کی انتخابی کامیابی ، آئینی جمہوری عمل کا آپ کے حق میں اہم حاصل۔ آپ نے و زیر اعظم بننے کی ٹھان ہی لی ہے تو فقیر کی مانیں کہ ایسے مہلک سیاسی ابلاغ سے ممکنہ حد تک پرہیز کریں۔ ’’آئین نو‘‘ میں پہلے ہی واضح کردیا گیا تھا کہ مقابلہ کانٹے دار ہوگا وہ ہوگیا۔ اب ریاستی اداروں کو نہ کوسا جائے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کو ڈھیروں مبارک، چلیں (بنتا تو نہیں) پی ٹی آئی کو بھی جس نے آپ کو تنہا میدان میں اتارا جبکہ پارٹی کے لیڈر حلقے سے غائب رہے اور آپ نے حلقے کے نہتے کارکنوں کے ساتھ میں انتخابی مہم چلائی، پارٹی نے اپنا یہ کفر ثابت کیا کہ جو ا میدوار پیسے والا ہوگا انتخابی مہم میں اسی کی معاونت کی جائے گی، تاہم یہ غنیمت ہے کہ پی ٹی آئی نے حلقہ 120کے لئے میاں نواز شریف (اور اب ان کی بیگم صاحبہ) جیسے بھاری بھر امیدوار کے مقابل آپ جیسی انسان دوست صادقہ و امین اور تعلیم یافتہ امیدوار کو اپنا امیدوار بنایا، جنہوں نے انتہائی کم وسائل میں بڑی محنت سے کمال انتخابی مہم چلائی۔ ڈاکٹر صاحبہ پارٹی کی مطلوب معاونت کے بغیر حلقے کی گنجان آباد گلیوں محلوں میں جاکر جیسے اسٹیٹس کو سے لڑی ہیں، اس کی کوئی مثال ہمارے انتخابی معرکوں میں نہیں ملتی۔ محترمہ انتخاب کیا لڑیں، نظام بد سے لڑیں، پھر انتظامیہ کی کھلی مداخلت اور وسائل ،الیکشن کمیشن کی نااہلی اور لاپروائی سے سب سے بڑھ کر ن لیگی گھاگ الیکشن پلیئرز سے۔ ان کی انتھک ، متحرک اور ہنستی مسکراتی انتخابی مہم نے ن لیگیوں کی نیندیں اڑادیں جو اس حلقے کا انتخاب بغیر کسی بڑی محنت کی جیتنے کی عادی تھی۔یہ درست ہے کہ ضمنی انتخابات میں ووٹر کے ووٹ ڈالنے کی شرح(ٹرن آئوٹ)عام انتخابات کے مقابل کم ہوتی ہے، لیکن یہ ریکارڈڈ فیکٹ حلقہ120کی گزشتہ روز کی پولنگ میں دہرائے جانے کا کوئی امکان نہ تھا کہ اس حلقے میں گزشتہ تمام انتخابات کی نسبت اس مرتبہ ووٹرز کو موبلائز کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، خصوصاً ن لیگ نے حکومتی جماعت ہونے کے ناتے جو جائز و ناجائز ان پٹ ممکن ہوسکتا تھااور بازی جیتنے کے لئے جتنا ہوسکتا تھا اپنی امیدوار کو فراہم کی، مریم صاحبہ کی سرگرم مہم ایک امتیازی اور نیا فیکٹر تھا، یہ نشست نااہل ہونے والے وزیر اعظم کی سکہ بند نشست تھی اور جس طرح انہوں نے خود ، مریم بی بی اور ن لیگی وزراء نے سپریم کورٹ اور قومی سلامتی کے اداروں کو عدالتی فیصلے کے حوالے سے رگیدااور ووٹرز کو ’’عوامی طاقت‘‘ سے عدالتی فیصلے رد کرنے کے لئے اکسایا، اس انتخاب کے نتائج نے ثابت کیا کہ اس کا ووٹرز پر کوئی اثر نہیں ہوا ا ور احتجاج جی ٹی روڈ پر ہی تحلیل ہوگیا۔ واضح رہے کہ عام انتخابات میں ا سی حلقے سے ٹرن آئوٹ 55فیصد اور اس مرتبہ فقط32فیصد رہا، گویا ن لیگ کے بے پناہ ان پٹ کا آئوٹ پٹ مایوس کن اور ن لیگ کے لئے باعث تشویش ہے، اگر میاں صاحب اپنے جیت کے حلقے میں ہی ان کی نظرثانی کی اپیل مسترد ہونے کے صرف دو روز بعد ٹرن آئوٹ کی یہ صورتحال رہی تو ’’عوام کی عدالت‘‘ کا بیانیہ بھسم ہوگیا، جسے مریم صاحبہ نے تواتر کے ساتھ انتخابی مہم میں استعمال کیا۔ شاید ملازمتوں کے خطوط اور نقدی کی تقسیم نے ضرور کچھ کام دکھایا ہے، وگرنہ محترمہ کلثوم اور محترمہ یاسمین کے درمیان ڈالے گئے ووٹوں کا غیر امکانی کم مارجن اور زیادہ کم ہوجاتا۔ اس سے یقیناً ن لیگ اور شریف خاندان کو بڑا سیاسی دھچکا لگا ہے لیکن پی ٹی آئی بھی کوئی اسے اکیلی کیش نہیں کراسکتی۔ اتنی بڑی تعداد میں اتنے بیدار حلقے میں انتخابی عمل سے لاتعلقی سے ووٹرز نے بیمار جمہوری نظام پر عدم اعتماد کا واضح پیغام ہے۔ باقی رہا پولنگ ڈے تو اس پر دونوں طرف سے بڑھ چڑھ کر بلیم گیم، دونوں طرف سے درجنوں کی تعداد میں شکایات ہیں، دونوں کی ہی کچھ غلط اور کچھ درست ہوں گی لیکن یہ جو ’’نظرنہ آنے والی قوتوں‘‘ پر ن لیگ نے انگلیاں اٹھائی ہیں تواگر وہ درست ہوتا تو کلثوم صاحبہ جیت کیسے جاتیں؟ ’’فرشتوں‘‘ کی روایت تو یہ رہی کہ جب وہ ایسے کھیل میں کام دکھاتے ہیں تو پورا دکھاتے ہیں۔ ن لیگ سے بہتر کون جانتا ہے؟ اکا دکا واقعات کی جھک ماری گئی ہے تو وہ دونوں ہی طرف سے اثر انداز نہیں ہوا۔ ایٹ لارج کچھ ایسا نہیں ہوا کہ اب اس کا ماتم کیا جائے۔ دونوں جماعتیں نتائج کی روشنی میں عام انتخابات کی تیاری کریں اور ووٹرز نے جو ریکارڈ کرایا ہے اسے اہمیت دیں۔

تازہ ترین