• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اچھا الیکشن تھا۔ دونوں فریقوں کو شکایت ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ نے پولنگ کے دوران ہی شکایت شروع کر دی تھی کہ ان کے کارکن غائب کر دیئے گئے ہیں۔ ان کے ووٹروں کو اندر نہیں جانے دیا جا رہا ہے۔ ان کے ایک پو لنگ ایجنٹ تو یہ کہتے ہوئے بھی پائے گئے کہ جس آدمی کے پاس مسلم لیگ کی پرچی ہوتی ہے اسے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ یہاں باہر کیا کر رہے ہیں، آپ کو تو پو لنگ اسٹیشن کے اندر ہونا چاہئے تھا؟ ان کے پاس اس کا کو ئی جواب نہیں تھا۔ پولنگ ختم ہونے کے قریب بھی جب لمبی لمبی قطاریں دیکھی گئیں تو یہ مسلم لیگ والے ہی تھے جنہوں نے مطالبہ شروع کر دیا تھا کہ پولنگ کا وقت بڑھایا جائے۔ البتہ اس وقت تک تحریک انصاف والے اپنی جیت پر اتنے پر اعتماد تھے کہ انہوں نے وقت بڑھانے کی مخالفت کر دی۔ لیکن الیکشن کے بعد اب وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور وہ اس کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔ ان کا دعویٰ تو یہ بھی ہے کہ ان کے انتیس ہزار ووٹ پہلے ہی غائب کردئے گئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جھگڑا ابھی ختم نہیں ہوا ۔ عدالتوں کا بوجھ اور بڑھ گیا ہے۔ لیکن اس الیکشن میں ایک اور نہایت ہی خطرناک رجحان سامنے آیا ہے اس کی طرف ابھی تک کسی کی توجہ نہیں گئی ہے۔ الیکشن میں مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے بعد جو تیسری جماعت سامنے آئی ہے وہ پیپلزپارٹی نہیں ہے بلکہ ملی مسلم لیگ ہے۔ یہ ملی مسلم لیگ کیا ہے؟ یہ ممنوعہ جماعت، جماعت الدعوۃ کا نیا چہرہ ہے۔ یہ حافظ سعید کی جماعت ہے، جنہیں ہم نے دنیا بھر کے اصرار پر حراست میں لیا ہوا ہے۔ اس جماعت کو چھ ہزار کے قریب ووٹ مل جانا ایک معنی رکھتا ہے۔ اب رہی غریب پیپلزپارٹی؟ تو اس نے اس الیکشن میں حصہ لے کر خواہ مخواہ اپنی رہی سہی عزت بھی گنوا دی۔ اول تو اس پارٹی کے ایک نہیں دو امیدوار تھے۔ ایک ورکرز پیپلزپارٹی کی پرانی کارکن اور دوسر ے اصل پیپلزپارٹی کا کارکن۔ اس غریب پارٹی کا حال تو یہ رہا کہ اپنے امیدوار کی حمایت کرنے کے لئے کوئی بھی بڑا رہنما اس علاقے میں نہیں آیا۔ اس پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین دور دور ہی جلسے جلوس کرتے رہے۔ جیسے انہیں یقین ہو گیا ہے کہ پنجاب ان کے ہاتھ سے جا چکا ہے اور شاید یہی حقیقت بھی ہے۔ اس پر ہمیں ایک نئے شاعر مقصود وفا کا ایک شعر یاد آ گیا ہے۔ اب یہ شعر پیپلزپارٹی کی مو جودہ صورت حال پر صادق آتا ہے یا نہیں؟ یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے۔ مگر چو نکہ یاد آ گیا ہے اس لئے حاضر ہے۔
مجھے تخریب بھی نہیں آتی
توڑتا کچھ ہوں، ٹوٹتا کچھ ہے
یوں تو الیکشن اور نجم سیٹھی کا گہرا تعلق بن گیا ہے کہ عمران خاں نے پچھلے الیکشن میں نجم سیٹھی کے 35پنکچر کا اتناشور مچایا تھا کہ نجم سیٹھی پنکچر والے مشہور ہوگئے تھے، حالانکہ عمران خاں وہ ثابت نہیں کر سکے تھے، لیکن اس وقت ہم نجم سیٹھی کے اس پنکچر کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جس نے کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو ایک بار پھر عالمی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں نا ’’کسی کی پھونک نکل جانا‘‘ تو سری لنکا کی ٹیم پر حملے کے بعد عالمی کرکٹ کے میدان میں ہماری پھونک نکل گئی تھی۔ ہماری ساکھ اور ہماری شہرت کے ٹائر ٹیوب پنکچر ہوگئے تھے اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان میں کیسے پنکچر لگائے جائیں اور کیسے ہوا بھری جائے۔ کرکٹ کی دنیا کی کو ئی بھی نامور ٹیم پاکستان آتے گھبراتی تھی۔ ہمارے ٹائر ٹیوب بالکل ہی فلیٹ پڑے تھے۔ ہمیں اگر کسی ٹیم سے کھیلنا بھی ہوتا تو دبئی یا شارجہ کا رخ کرتے تھے۔ نجم سیٹھی نے اول تو سپرلیگ شروع کرائی۔ اس کے ذریعے پورے پاکستان میں کرکٹ کا غلغلہ ہوا۔ دنیا نے بھی ہماری طرف توجہ کی اور وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں، انہوں نے ’’ہمیں سنجیدگی سے لینا شروع کیا‘‘۔ اس سپرلیگ سے کچھ نئے کھلاڑی بھی سامنے آئے۔ ایک بیرونی ٹیم بھی پاکستان آئی اور آخر ورلڈ الیون پاکستان آگئی۔ ورلڈ الیون کا پاکستان آنا اور تین ٹی ٹوینٹی کھیلنا نجم سیٹھی کا وہ پنکچر ہے جس نے پاکستانی کرکٹ کیلئے باہر کی دنیا کی کھڑکیاں ہی نہیں، دروازے کھول دیئے ہیں۔ اب وہ دن دور نہیں جب دنیا کی تمام ٹیمیں پاکستان آئیں گی۔ کہتے ہیں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلے آنے والی ہے۔ اسکے بعد دیکھئے پھر کون آتا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بات جب بنے گی جب گوری ٹیمیں یہاں آئیں گی۔ انگلستان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں کو اپنی جانیں کچھ زیادہ ہی عزیز ہیں۔ وہ پاکستان آتے ڈرتے ہیں۔ ہمیں ان کا ڈر نکالنا ہے اور یہ ڈر اسی وقت نکل سکتا ہے جب ہمارے ملک سے خوف کی فضا ختم ہو گی۔ ورلڈ الیون کے آنے پر ہمیں جو حفاظتی انتظام کرنا پڑے وہ کسی بھی مہذب ملک کیلئے نیک نامی کا باعث نہیں ہو سکتے۔ کھیل ہو رہا تھا قذافی اسٹیڈیم میں (بے چارہ قذافی تو کب کا مار دیا گیا۔ اسکے اپنے ملک میں بھی اس کی کوئی یادگار نہیں ہوگی۔ صرف پاکستان میں ہی اس کی یادگار رہ گئی ہے) مگر پورا شہر سیکورٹی زون بنا ہوا تھا۔ گلبرگ کی مین مارکیٹ سے لبرٹی تک تمام بازار بند کر دیئے گئے تھے۔ ارد گرد کے تمام تعلیمی ادارے بھی بند تھے۔ ایف سی یونیورسٹی اسلئے بند کر دی گئی تھی کہ چو نکہ اس کا پارکنگ کا علاقہ بہت بڑا ہے اسلئے کرکٹ کے شوقینوں کی گاڑیاں وہاں کھڑی کی گئی تھیں۔ پہلے دن تو یہ حال تھا کہ گارڈن ٹائون تک کاروں کی قطاریں ایسی لگی ہوئی تھیں کہ ’’نہ پائے مانند نہ جائے رفتن‘‘۔ دوسرے دن حالات کچھ ٹھیک ہو ئے تھے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ حالات کیسے ٹھیک ہوں گے؟
اگر ہم ان طاقتوں، ان حلقوں اور ان گروہوں کو اپنے معاشرے میں کھل کھیلنے کی اجازت دیتے رہیں گے جو اس خرابی کی جڑہیں تو سوچ لیجئے کہ کیا کبھی ہمارے ہاں امن و امان کے وہ حالات پیدا ہو سکیں گے جو باہر کی کرکٹ ٹیموں کو ادھر کا رخ کرنے پر مائل کر سکیں؟ اتوار کا الیکشن ہمارے سامنے ہے۔ مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے بعد تیسری جماعت پیپلزپارٹی نہیں تھی بلکہ ’’ملی مسلم لیگ‘‘ تھی۔ اسے جتنے ووٹ ملے وہ ہمارے معاشرے کے موجودہ روپ رنگ کی ہی تو نشان دہی کرتے ہیں۔ ہم دہشت گردوں کو مارنے، اور ان کا قلع قمع کر نے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں، لیکن ہم نے ان نرسریوں کو بالکل ہی کھلا چھوڑ دیا ہے جہاں تفرقہ باز، انتہاپسند اور دہشت گرد پیدا ہورہے ہیں۔ ہم نے انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہے کریں۔ لیکن..... ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اتوار کے الیکشن کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں گی اور نجم سیٹھی ’’تیغوں کے سائے‘‘ میں ہی کرکٹ میچ کرا تے رہیں گے۔ چلئے، یہ شعر پھر پڑھ لیجئے
مجھے تخریب بھی نہیں آتی
توڑتا کچھ ہوں، ٹوٹتا کچھ ہے

تازہ ترین