• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو دن قبل مسلم لیگ ن نے ہوم گرائونڈ پر پاکستان تحریک انصاف پر برتری حاصل کی۔ یہ مقابلہ مسلم لیگ ن کی توقعات کے برعکس کافی سخت رہا۔ جو سیٹ چالیس ہزار سے زائد ووٹوں سے جیتی گئی تھی وہ اس کالم کے لکھنے تک غیرحتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق بمشکل پندرہ ہزار سےووٹوں سے جیتی گئی۔ تاہم جیسا کہ سیاست میں ہوتا ہے، مسلم لیگ ن نے اسے ایک بڑی فتح اور سازشی عناصر کی شکست قرار دیا۔ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے لیڈر میاں محمد نواز شریف کی خالی کردہ سیٹ پر ان کی اہلیہ کو فتحیاب کرواکر ان کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انتخابی مہم چلانے والی مریم نوازکی بھی پذیرائی کی ہے۔ بظاہر تو مسلم لیگ ن اسے بڑی فتح قرار دے رہی ہے لیکن اگر اندرونی طور پر خطرے کی گھنٹی نہیں بجی تو بج جانی چاہئے۔
اس الیکشن کے محرکات کو سمجھنا بڑا اہم ہے۔الیکشن سے قبل میاں نواز شریف کوملک کی اعلیٰ عدلیہ پانامہ کیس میں نہ صرف نا اہل قرار دے چکی تھی بلکہ ان کے خلاف کیسز احتساب عدالت میں بھی بھجوا دیئے تھے۔نواز شریف اس فیصلے کے خلاف باہر نکلے اور جلسے جلوس اور ریلیاں بھی نکال چکے تھے۔ میاںنواز شریف جو اس وقت لندن میں موجود ہیں ذاتی طور پر بہت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کو عوام سے مزید ہمدردی ملنی چاہیے۔مسلم لیگ ن کی NA-120کی امیدوار خود کینسر سے جنگ لڑ رہی ہیں۔ ان کی انتخابی مہم سابق وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز خود چلا رہی ہیں۔الیکشن مسلم لیگ ن کے گڑھ لاہور میں ہورہا ہے جہاںنہ صرف مسلم لیگ کی حکومت ہے بلکہ انھوں نے یہاں بیشتر ترقیاتی کام بھی کیے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار اور مسلم لیگ ن کی امیدوار کی سیاسی مقبولیت میں زمین آسمان کا فرق ہے جہاں یہ مسلم لیگ ن کے لیے کلین سوئپ ہونا چاہیے تھا وہاں پر انھیں ایک ٹف ٹائم دیکھنا پڑا۔ مسلم لیگ ن اپنی کارکردگی کے دفاع میں یا تو ووٹر غائب ہونے کی بات کررہی ہے یا یہ کہا جارہا ہے کہ ن لیگ کے ووٹرز قطاروں میں کھڑے رہ گئے اور انھیں ووٹ ڈالنے کا وقت نہیں ملا۔ کچھ جگہ پر مسلم لیگ ن نے یہ بھی اشارہ کیا کہ ان کا اصل حریف عمران خان اور تحریک انصاف سے گئی گنا زیادہ طاقتور ہے۔ ویسے تو ہر الیکشن کے بعد جیتنے والے اور ہارنے والے دونوں اپنی ہار اور جیت کے جواز پیش کرتے ہیں تاہم آخر میں حتمی نتیجہ اہمیت رکھتاہے اور حتمی نتیجہ ن لیگ کچھ اچھا نہیں ہے۔اور اس طرح کے جواز پیش کرنے سے لگتا ہے کہ ن لیگ خود بھی اپنی کارکردگی سے اتنی خوش نہیں ہے۔ظاہری اور غیر ظاہری طور پر ن لیگ کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔1منتخب وزیراعظم کو نااہل کردیا۔2ان کے اہم ترین رہنما چوہدری نثار ناراض ہیں اوران کے بیانات ن لیگ کےلئے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں ۔3کئی لوگ نواز شریف اور شہباز شریف کے آپس کے اختلافات کی باتیں بھی کررہے ہیں۔4شائد سب سے برا چیلنج یہ ہے کہ اتنے سالوں میںن لیگ ریاستی اداروں میں دوستوں سے زیادہ دشمن بناتی رہی ہے۔دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی اس نتیجے سے خوش نہیں ہے اور یہی تحریک انصاف کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہ جو برتریاں حاصل کرتے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے مزید سے مزید کی بھاگ دوڑ میں حاصل کیا ہوا بھی گنوا نے کے قریب آجاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ آغاز میں تحریک انصاف کے پاس کچھ نہیں تھا لیکن وقت نے یہ بھی دکھایا کہ آج وہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج جو تحریک انصاف کو درپیش ہے وہ ان کے اندرونی اختلافات ہیں اور خیبر پختونخوا میں ان کی کارکردگی ہے۔ جو کہ آئندہ الیکشن میں ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہونگے ۔بہرحال NA-120کا سہرا کس کے سر رہا؟ مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف؟ یہ اس پر منحصر ہے کہ آ پ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟ تاہم، حقیقی فاتح وہی ہوگا جو اس الیکشن کو ایک ٹیسٹ کیس کی طرح لے گااپنی خامیوں اورخوبیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی تیار کرے گا۔ لیکن ایک بات جو NA-120اور ن لیگ کی حالیہ ریلیوں نے ثابت کردی ہے کہ ان کی سیاسی پوزیشن پہلے سے مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوچکی ہے۔

تازہ ترین